بسم
اللہ الرحمن
الرحیم
نماز
میں شرعی صف
بندی
الحمد
للہ رب العالمین
والعاقبۃ
للمتقین
والصلاۃ
والسلام علی سید
الأنبیاء
والمرسلین
ومن اھتدی بھدیہ
إلی یوم الدین،
أمابعد:
نماز
اسلام کا ایک
عظیم رکن ہے
اور ایک اہم
ترین ستون ہے،
کفر وایمان کی
کسوٹی ہے، اسی
کی اہمیت کے پیش
نظر اللہ تعالی
نے قرآن مجید
میں بار بار
اقامت صلاۃ کی
تاکید فرمائی
اور نبی کریم ﷺ نے
زندگی بھر
بحکم الہی
عملا نماز کی
پابندی کی اور
اپنی امت کو
اس پر مداومت
کی تاکید کرتے
رہے، اس کے
فضائل واحکام
تفصیل کے ساتھ
بیان کرتے
رہے۔
لیکن
چونکہ نماز ایک
اجتماعی
عبادت ہے جس میں
نظم وضبط کی
تشکیل ضروری
تھی، اس لیے
اسلام نے
نمازوں کو
اقامت صلاۃ کے
ساتھ اقامت صف
کی پابندی کا
حکم دیا،
چنانچہ نبی کریم
ﷺ نے
اقامت صف کی
بار بار تاکید
فرمائی اور اس
کی شرعی اہمیت
کو بیان کرتے
ہوئے اقامت صف
کو اقامت صلاۃ
کا جزء قرار دیا،
اس کی اہمیت
کا احساس
دلانے کے لیے
صحابۂ کرام
کو ایک مدت تک
عملا صف بندی
کی ٹریننگ دیتے
رہے، تاآنکہ
صحابہ کرام
پوری طرح اس
پر کاربند
ہوگئے اور أقیموا
صفوفکم
وتراصوا پر
عمل کرتے ہوئے
صف میں اپنے
ٹخنوں،
گھٹنوں اور
مونڈھوں کو
ملانے چپکانے
لگ گئے، مگر
افسوس آج اس
محبوب عمل سے
اکثر لوگ غافل
ہوگئے اور
صحابہ کرام کی
روش سے ہٹ گئے
اور اس کی اصل
صورت بدلتی گئی،
حتی کہ صفوں میں
کجی اور دلوں
میں پھوٹ پڑگئی
، جس کی تصویر
کشی علامہ
اقبال نے یوں
کی ہے:
مسلمانوں
میں خوف باقی
نہیں ہے محبت کا
جنوں باقی نہیں
ہے
صفیں کج،
دل پریشاں،
سجدہ بے ذوق کہ جذب
اندروں باقی
نہیں ہے
الامان
والحفیظ
اسی تہہ
بتہ غفلت وبے
حسی کو دور
کرنے کے لیے یہ
مختصر تحریر پیش
کی جارہی ہے
جس میں صف بندی
کے فضائل
واحکام پر سنت
صحیحہ کی روشنی
میں بحث کی گئی
ہے، اللہ تعالی
ہم تمام
مسلمانوں کو
کتاب وسنت کے
حقائق انجام دینے
کی توفیق دے،
آمین ثم آمین۔
نماز
میں صف بندی
کا حکم
نماز میں
صف بندی ضروری
وواجب ہے، اس
کے دلائل
مندرجہ ذیل ہیں:
1 - پہلی
دلیل : وہ احادیث
جن میں صیغۂ
امر کے ساتھ
صف بندی کی
تاکید وارد
ہوئی ہے، جیسے
أحسنوا
اقامۃ
الصفوف۔ (مسند
احمد: 2 / 485) یعنی
صفوں کی درستگی
میں خوبی پیدا
کرو وغیرہ۔
2 - دوسری
دلیل: وہ بعض
احادیث جن میں
فعل کے ساتھ
لاء نہی کا
استعمال ہوا
ہے، اور فعل
نہی تحریم کا
فائدہ دیتا ہے
الا یہ کہ کوئی
قرینہ صارفہ
موجود ہو اور یہاں
کوئی قرینہ
صارفہ موجود
نہیں ہے بلکہ
ایسے قرائن ہیں
جو تاکید کا
فائدہ دیتے ہیں
جیسے ولا
تختلفوا فتختلف
قلوبکم۔ (مسند
احمد: 1 / 457) یعنی
آگے پیچھے
کھڑا نہ ہو
ورنہ تمہارے
دلوں میں پھوٹ
پڑجائے گی۔
3 - تیسری
دلیل: صفوں کی
عدم درستگی پر
حضرت انس رضی
اللہ عنہ کی
نکیر، جیسا کہ
بشیر بن یسار
انصاری رضی
اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ: ’’انہ قدم
المدینۃ فقیل
لہ ما أنکرت
منا منذ یوم
عھدت رسول
اللہ ﷺ؟ قال ما
أنکرت شیئا
الا أنکم لا
تقیمون الصلاۃ‘‘۔
(صحیح بخاری مع
الفتح: 2 / 209، 210) یعنی
حضرت انس رضی
اللہ عنہ مدینہ
منورہ تشریف
لائے تو ان سے
پوچھا گیا جس
دن سے رسول
اللہ ﷺ کی رفاقت
نصیب ہوئی آپ
نے ہم میں کوئی
منکر بات دیکھی؟
انہوں نے کہا
کہ اس کے سوا
کوئی منکر بات
نہیں دیکھی کہ
تم لوگ صفوں
کو درست نہیں
کرتے ہو۔
4 - چوتھی
دلیل: حضرت
عمر اور حضرت
بلال رضی اللہ
عنہما صف
برابر نہ کرنے
والوں کے پیروں
پر ضرب لگاتے
تھے۔ (الفتح: 2 / 210)
اس کے
علاوہ دوسرے
دلائل بھی ہیں
جن سے صف بندی
کے وجوب کا
ثبوت اظہر من
الشمس ہے، تفصیل
کے لیے مرعاۃ
المفاتیح (4 / 1-2) اور
نماز میں صف
بندی اور اس
کے فوائد
ملاحظہ ہوں۔
ان ہی
دلائل واضحہ
وصریحہ کے پیش
نظر صف بندی
کے وجوب کو
بہت سے ائمہ
وعلماء نے ترجیح
دیا ہے، امام
بخاری صحیح
بخاری میں بایں
الفاظ تبویب
فرماتے ہیں: ’’باب اثم
من لم یتم
الصفوف‘‘
(الفتح: 2 / 209) یعنی صف
پوری نہ کرنے
والے کے گناہ
کا بیان۔ یہ
عنوان وجوب کی
طرف اشارہ
کرتا ہے جس کی
تصریح حافظ
ابن حجر نے فتح
الباری میں کی
ہے۔
حافظ ابن
حزم ؒ
فرماتے ہیں:
’’فرض علی
المأمومین
تعدیل الصفوف
الأول
فالأول
والتراص فیھا
والمحاذاۃ
بالمناکب
والأرجل فان
کان نقص کان
في آخرھا‘‘ (المحلی:
4 / 56) یعنی مقتدیوں
پر فرض ہے کہ
وہ صفوں کو
برابر کریں،
پہلے پہلی صف
پھر دوسری اور
سیسہ پلائی دیوار
کی طرح کھڑے
ہوں اور
کندھوں اور پیروں
کو باہم ملائیں۔
صف بندی
کے وجوب کی
صراحت یا
اشارہ متعدد
علمائے کرام
نے کیا ہے، جیسے
امام شوکانی
نے نیل
الاوطار (2 / 29) میں،
اور صاحب
السبل امام
صنعانی نے سبل
السلام (2 / 60) میں،
اور شیخ
الاسلام ابن تیمیہ
رحمہ اللہ نے
مجموع الفتاوی
(32/ 394) میں، ابن خزیمہ
رحمہ اللہ نے اپنی
صحیح (3 / 20) میں، شیخ
البانی رحمہ
اللہ نے سلسلۃ
الاحادیث
الصحیحۃ، حدیث
نمبر: 32 میں،
اور امام نووی
رحمہ اللہ نے
شرح مسلم (4 / 153) میں،
اور حافظ منذری
نے الترغیب
والترھیب (1 / 326) میں،
شیخ الحدیث
مولانا عبید
اللہ
مبارکپوری
رحمہ اللہ نے
مرعاۃ المفاتیح
(4 / 1 – 2) میں ۔
صف
کے پیچھے تنہا
نمازی کی نماز
نہیں ہوتی :
ان وجوب
کے دلائل کا
تقاضا ہے کہ
صف کے پیچھے
تنہا نمازی کی
نماز نہیں ہوتی
ہے، اور یہی
صحیح ہے،
چنانچہ اس پر
دوسرے دلائل
سے بھی
استدلال کیا
جاتا ہے ۔
عبد
الرحمن بن علی
بن شیبان سے
مروی ہے، وہ
اپنے والد علی
بن شیبان سے
روایت کرتے ہیں
جو وفد کے ایک
فرد تھے وہ
کہتے ہیں: ’’صلینا
خلف یعني
النبي ﷺ فقضی
النبي ﷺ الصلاۃ
فرأی رجلا
فردا یصلي خلف
الصف فوقف علیہ
نبي اللہ صلی
اللہ علیہ
وسلم حتی قضی
صلاتہ ثم قال
لہ: استقبل
صلاتک فلا صلوۃ
لفرد خلف
الصف‘‘۔ (صحیح
ابن خزیمہ حدیث:
1569، ارواء الغلیل
حدیث: 541) ہم نے
آپ یعنی نبی
کریم ﷺ کے پیچھے
نماز پڑھی، پس
نبی ﷺ نے نماز
پوری کی تو ایک
شخص کو صف کے پیچھے
اکیلے نماز
پڑھتے ہوئے دیکھا
تو نبی کریم ﷺ نے
انتظار کیا حتی
کہ اس نے نماز
پوری کرلی تو
آپ نے اس سے
کہا اپنی نماز
پھر سے پڑھو کیونکہ
صف کے پیچھے
منفرد کی نماز
نہیں ہوتی ۔
حضرت
وابصہ بن معبد
رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ:
’’رأی
رسول اللہ ﷺ رجلا یصلي
خلف الصف
فأمرہ أن یعید
الصلاۃ‘‘ (مسند
احمد: 4 / 227، 228، سنن
الترمذی وسنن
ابی داود کما
فی المرعاۃ: 4 / 24) یعنی
نبی کریم ﷺ نے ایک
آدمی کو صف
کے پیچھے نماز
پڑھتے ہوئے دیکھا
تو آپ ﷺ نے اس
کو نماز
لوٹانے کا حکم
دیا۔
یہ دونوں
حدیثیں واضح
طور پر دلالت
کرتی ہیں کہ
صف کے پیچھے
اکیلا نمازی کی
نماز نہیں ہوتی
ہے۔ (مرعاۃ
المفاتیح: 4 / 24 – 25) ملاحظہ
ہو۔
ہم
صف بندی کیسے
کریں؟
ہم سب سے
پہلے پہلی صف
کو مکمل کریں
پھر دوسری پھر
اسی طرح صفوں
اور اگر کمی
رہے تو آخری
صف میں ، یہی
کمال صف بندی
ہے۔
حضرت
جابر بن سمرہ
رضی اللہ عنہ
ایک طویل حدیث
کے ایک ٹکڑے میں
کہتے ہیں: ’’ثم
خرج علینا
فقال ألا
تصفون کما تصف
الملائکۃ عند
ربھا؟ فقلنا یا
رسول اللہ وکیف
تصف الملائکۃ
عند ربي؟ قال یتمون
الصفوف
الأول ویتراصون
في الصف‘‘۔ (صحیح
مسلم مع النووی:
4 / 172)
یعنی آپ
ہمارے پاس ایک
مرتبہ پھر
آئے، اور پھر
فرمایا تم
بارگاہ الہی میں
فرشتوں جیسی
صف بندی کیوں
نہیں کرتے؟ ہم
نے عرض کیا اے
اللہ کے رسول !
فرشتے اپنے رب
کے حضور میں
کس طرح صف بندی
کرتے ہیں؟ آپ
نے فرمایا: وہ
صفوں کو مکمل
کرتے ہیں اور
صف میں ایک
دوسرے سے مل
کر کھڑے ہوتے
ہیں۔
حضرت انس
رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’أتموا
الصف المقدم
ثم الذي یلیہ
فما کان من
نقص فلیکن في
الصف
المؤخر۔
رواہ
أبوداود
وسکت علیہ
والمنذري،
وأحمد
والنسائي
والبیھقي (3 / 102) کما
في المرعاۃ: 4 / 15) یعنی
پہلے صف اول
کو پورا کرو،
پھر اس کے بعد
والی صف کو
اور جو کمی
رہے وہ بالکل
آخری صف میں۔
اس کے بعد
صف میں ایک
نمازی دوسرے
کے مونڈھے سے
اپنا مونڈھا
اور گھٹنے سے
اپنا گھٹنہ
اور ٹخنے سے
اپنا ٹخنہ
ملاکر کھڑا
ہو، یہی طرز
عمل صحابہ
کرام کا نبی ﷺ کے عہد
مبارک میں
تھا، چنانچہ
اس کی وضاحت
کرتے ہوئے
حضرت انس رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں:
’’وکان
أحدنا یلزق
منکبہ بمنکب
صاحبہ وقدمہ
بقدمہ‘‘۔ (صحیح
بخاری مع
الفتح: 2 / 211) یعنی
اور ہم میں سے
ایک شخص اپنے
ساتھ والے کے
مونڈھے سے
اپنا مونڈھا
اور اس کے
پاؤں سے اپنا
پاؤں ملاتا
تھا۔
اور حضرت
انس رضی اللہ
عنہ کی ایک
روایت فوائد
مخلص میں یوں
ہے: ’’فلقد
رأیت أحدنا یلصق
منکبہ بمنکب
صاحبہ وقدمہ
بقدمہ، فلو
ذھبت تفعل ھذا
الیوم لنفر
أحدکم کانہ
بغل شموسہ
سلسلۃ
الأحادیث
الصحیحۃ 1 / 93) یعنی
میں شاہد ہوں
اس بات کا کہ
ہم میں ایک
شخص دوسرے شخص
کے مونڈھے سے
اپنا مونڈھا
اور اس کے قدم
سے اپنا قدم
ملاتا تھا، لیکن
اگر تم آج ایسا
کرنے لگو تو
تم میں کا ہر
شخص سرکش خچر
کی طرح بدکنے
لگے گا۔
اور
لقمان بن بشیر
رضی اللہ عنہ
کے ایک قول میں
ہے:
’’فرأیت
الرجل یلصق
منکبہ بمنکب
صاحبہ ورکبتہ
برکبۃ صاحبہ
وکعبہ
بکعبہ‘‘۔ (سنن
ابی داود: 871، وصحیح
ابن حبان: 369، ومسند
احمد: 4 / 276)
یعنی میں
نے دیکھا کہ
ہم سے ایک ایک
آدمی اپنا
مونڈھا دوسرے
کے مونڈھے سے
اور اپنا گھٹنا
دوسرے کے
گھٹنے سے اور
اپنا ٹخنہ اس
کے ٹخنے سے صف
میں ملاتا
تھا۔
اور
ہمارے لیے یہ
بھی ضروری ہے
کہ ہم صف میں
اپنے مونڈھے
اور گردن کو
بالکل برابر
رکھیں، کیونکہ
نبی ﷺ کا فرمان
ہے:
’’وحاذوا
بالاعناق‘‘۔
(سنن النسائی: 1 /
276، صحیح ابن خزیمہ:
3 / 22، وصحیح
الترغیب
والترہیب: 69) یعنی
اور گردنوں کو
برابر کرو۔
اور یہ بھی
فرمایا:
’’وحاذوا بین
المناکب‘‘
(مسند احمد: 5 / 262، صحیح
الترغیب
والترھیب: 69) یعنی
اپنے مونڈھوں
کو برابر کرو۔
مذکورہ
بالا احادیث
اس بات پر
دلالت کرتی ہیں
کہ ایک نمازی
دوسرے کے
مونڈھے سے
اپنا مونڈھا
اور گھٹنا سے
دوسرے کے
گھٹنے اور
ٹخنا ٹخنے سے
ملا کر کھڑا ہو
اور صف میں
سارے نمازی
بالکل برابر
کھڑے ہوں، اس
طرح کہ کسی کا
مونڈھا یا
گردن یا سینہ
دوسرے کے مونڈھے،
گردن اور سینے
آگے پیچھے نہ
ہو، جو لوگ
اپنے دونوں پیروں
کو ضرورت سے زیادہ
پھیلا کر کھڑے
ہوتے ہیں، ان
کا یہ عمل بھی
مونڈھے،
گھٹنے اور
ٹخنے کے ملانے
سے مانع ہے،
اس لیے ضروری
ہے کہ نمازی
اپنے پیروں کو
حد اعتدال سے
زیادہ نہ پھیلائیں۔
صف
کے مراتب
اگر نمازی
مرد وعورت ،
بالغ ونابالغ
ہوں یا ایک
مقتدی ہو تو
مندرجہ ذیل
احادیث کے
مطابق عمل کیا
جائے گا۔
حضرت عبد
اللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ
روایت کرتے ہیں
، رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:
’’لیلني
منکم أولو
الأحلام
والنبي ثم الذین
یلونھم ثم الذین
یلونھم‘‘۔
(رواہ مسلم،
وأبوداود
واحمد
والترمذی وغیرھم
کما فی المرعاۃ:
4 / 10) یعنی میرے
قریب رہیں (صف میں ) وہ لوگ
جو بالغ اور
عقلمند ہیں
پھر جوان سے
قریب ہیں پھر
جو ان سے قریب
ہیں۔
عن أبي
ھریرۃ رضي
اللہ عنہ قال
قال رسول اللہ
ﷺ: خیر
صفوف الرجال
أولھا وشرھا
آخرھا وخیر
صفوف النساء
آخرھا وشرھا
أولھا۔ (رواہ
مسلم
وابوداود
والنسائی
والترمذی وغیرھم
کما فی المرعاۃ:
4 / 13) یعنی حضرت
ابو ہریرہ سے
روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: مردوں
کی صفوں میں
سب سے بہتر صف
اول صف ہے،
اور سب سے بری
آخری صف ہے
اور عورتوں میں
سب سے بری اول
صف ہے اور سب
سے بہتر آخری
صف ہے۔
مقتدی
اگر ایک ، دو یا
دو سے زائد ہیں
تو ایسی صورت
میں امام آگے
اور مقتدی پیچھے
کھڑے ہوں گے،
لیکن اگر ایک
ہی مقتدی ہے
تو یہ مقتدی
امام کے دائیں
جانب کھڑا
ہوگا اور
برابر کھڑا
ہوگا نہ آگے اور
نہ پیچھے، صحیح
بخاری ومسند
احمد میں مروی
ہے کہ حضرت
ابن عباس رضی
اللہ عنہما
آپ کے بائیں
کھڑے ہوتے تو
آپ نے ان کو
اپنے دائیں
جانب کردیا۔
(مختصر صحیح
بخاری ص 18، حدیث
نمبر 366، مسند
احمد: 1 / 330)
شرعی
صف بندی کے
ثمرات وفوائد
اور اس کی
خلاف ورزی کے
نقصانات
شرعی صف
بندی سے مسلمانوں
میں باہم الفت
ومحبت پیدا
ہوتی، دلوں سے
نفرت وکدورت
دور ہوتی ہے
اور یہ محبت
وخلوص دخول
جنت کا باعث
ہے، اس سے
نماز مکمل ہوتی
ہے جیسا کہ
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:
’’سووا
صفوفکم، فان
تسویۃ الصفوف
من تمام الصلاۃ‘‘
(صحیح مسلم مع
النووی: 4 / 156) یعنی
اپنی صفوں کو
درست کرو، کیونکہ
صفوں کو درست
کرنا نماز کے
کمال میں سے
ہے۔
ایک روایت
میں ہے:
’’فان اقامۃ
الصف من حسن
الصلاۃ‘‘ (صحیح
بخاری مع
الفتح: 2 / 209، صحیح
مسلم مع النووی:
4 / 156) یعنی صف کی
درستگی نماز کی
خوبی میں سے ہے۔
اور حضرت
انس کی ایک
روایت میں ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:
’’سووا
صفوفکم فان
تسویۃ الصفوف
من اقامۃ
الصلاۃ‘‘ (صحیح
بخاری مع
الفتح: 2 / 209) یعنی
اپنی صفوں کو
برابر کرو، اس
لیے کہ صفوں
کو برابر کرنا
اقامت نماز کا
ایک جزء ہے۔
شرعی صف
بندی باعث
دخول جنت ہے
اور سبب رفع
درجات ہے،
حضرت عائشہ ؓ روایت
کرتے ہوئے کہتی
ہیں کہ نبی کریم
ﷺ نے
فرمایا:
’’من سد فرجۃ
رفعہ اللہ بھا
درجۃ وبنی لہ
بیتا فی الجنۃ‘‘۔
(صحیح الترغیب
والترھیب: 502) یعنی جو
خالی جگہ پر
کرے گا اللہ
تعالی اس کے
عوض اس کا
رتبہ بڑھائے
گا اور اس کے لیے
جنت میں گھر
بنائے گا۔
اور ایک
دوسری حدیث میں
ہے:
’’وما من
خطوۃ أحب إلی
اللہ من خطوۃ یمشیہا
العبد یصل بھا
صفا‘‘۔ (سنن ابی
داود: 1 / 149، صحیح
الترغیب: 506) یعنی
اس قدم سے زیادہ
محبوب اللہ کے
نزدیک کوئی
قدم نہیں جسے
بڑھا کر صف کو
جوڑے۔
اور ایک
حدیث شریف میں
ہے:
’’خیارکم
ألینکم
مناکب في
الصلاۃ وما من
خطوۃ أعظم
أجرا من خطوۃ
مشاھا رجل إلی
فرجۃ في الصف فسدھا‘‘ (صحیح
الترغیب: 501) یعنی
تم میں اچھے
وہ لوگ ہیں جن
کے مونڈھے
نماز میں
دوسروں کے لیے
نرم ہوں اور
اجر وثواب میں
اس قدم سے بڑھ
کر کوئی قدم
نہیں جسے آدمی
صف کی خالی
جگہ پر کرنے
کے لیے بڑھاتا
ہے اور اسے پر
کردیتا ہے۔
غیر شرعی
صف بندی کے
نقصانات
ومضرات بہت سے
ہیں، ان میں
چند یہ ہیں:
غیر شرعی
صف بندی عصیان
وطغیان ومعصیت
واثم ہے، اور
بقول ابن حزم
اس سے نماز
فاسد وباطل
ہوجاتی ہے اور
اس میں کمی تو
ضرور آتی ہے،
اللہ تعالی ہم
کو اس سے
محفوظ رکھے۔
صفوں کی
کجی دلوں میں
اختلاف کا
موجب ہے، حضرت
ابو مسعود ؓ سے
روایت ہے، وہ
کہتے ہیں کہ
اللہ تعالی نے
ارشاد فرمایا:
’’استووا
ولا تختلفوا
فتختلف قلوبکم‘‘
(مسند احمد: 1 /
457، صحیح مسلم
مع النووی: 4 / 154) صفوں میں
برابر کھڑے
رہو، آگے پیچھے
نہ ہو ورنہ
تمہارے دلوں میں
پھوٹ پڑ جائے
گی ۔
ایک حدیث
میں نبی کریم ﷺ نے قسم
کھاکر فرمایا:
’’أقیموا
صفوفکم
فواللہ لتقیمن
صفوفکم أو لیخالفن
اللہ قلوبکم‘‘
(سنن ابی
داود: 1 / 271، صحیح
الجامع الصغیر:
1202) یعنی لوگ !
اپنی صفیں برابر
کرلو، اللہ کی
قسم تمہیں اپنی
صفوں کو برابر
کرنا ہوگا
ورنہ اللہ
تعالی تمہارے
دلوں میں پھوٹ
ڈال دے گا۔
صفوں کی
کجی امت کی
ہلاکت کا موجب
ہے، کیونکہ
ابھی یہ معلوم
ہوا کہ صفوں کی
بے ضابطگی
اختلاف قلوب
کا باعث ہے
اور یہ امت کی
ہلاکت کا باعث
ہے، اللہ تعالی
کا فرمان ہے:
’’ولا
تنازعوا
فتفشلوا
وتذھب ریحکم‘‘۔
(الانفال: 46)
یعنی
آپس میں نزاع
واختلاف نہ
کرو ورنہ تم
کمزور ہو
جاؤگے اور
تمہاری ہوا
اکھڑ جائے گی
۔
اور اللہ
تعالی کے رسول
ﷺ نے
فرمایا:
’’ولا
تختلفوا فان
من کان قبلکم
اختلفوا
فھلکوا‘‘۔ (صحیح
بخاری مع الفتح:
9 / 101)
یعنی تم
اختلاف نہ کرو
کیونکہ تم سے
پہلی امتوں نے
اختلاف کیا تو
وہ ہلاک
ہوگئے۔
غیر شرعی
صف بندی سے
چہروں میں
اختلاف پیدا
ہوجاتا ہے۔
حضرت
لقمان بن بشیر
رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:
’’لتسون
صفوفکم أو لیخالفن
اللہ بین وجوھکم‘‘
(صحیح بخاری
مع الفتح: 2 / 207، صحیح
مسلم مع النووی:
4 / 157) یعنی تم لوگ
اپنی صفیں سیدھی
اور برابر
کرلو، ورنہ
اللہ تعالی
تمہارے چہروں
کے درمیان
پھوٹ ڈال دے
گا ۔
امام نووی
شرح صحیح مسلم
میں لکھتے ہیں
کہ اس حدیث کا
مطلب یہ ہے کہ
اللہ تعالی
تمہارے درمیان
بغض وعناد اور
دلوں میں پھوٹ
ڈال دے گا۔
غیر شرعی
صف بندی پر وعید
آئی ہے اور
اس سے صفوں میں
شیاطین کی خلل
اندازی ہوتی
ہے، حضرت عبد
اللہ بن عمر ؓ سے
مروی ہے وہ
کہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ کا
ارشاد ہے:
’’أقیموا
الصفوف فانما
تصفون بصفوف
الملائکۃ،
وحاذوا بین
المناکب
وسدوا الخلل،
ولینوا بأیدي
اخوانکم ولا
تذروا فرجات
للشیطان ومن
وصل صفا وصلہ
اللہ ومن قطع
صفا قطعہ
اللہ‘‘۔ (صحیح
الترغیب
والترھیب،
سنن ابی داود: 1 /
79) یعنی تم لوگ
اپنی صفوں کو
درست کرو، کیونکہ
تم کو فرشتوں
جیسی صف بندی
کرنی ہے، اور
مونڈھوں کو
برابر کرو،
خالی جگہوں کو
پر کرلو اور
اپنے بھائیوں
کے ہاتھوں میں
نرم ہوجاؤ
اور شیطان کے
لیے بیچ میں
خالی جگہ نہ
چھوڑو، کیونکہ
جو شخص صف کو
ملائے گا اللہ
تعالی بھی اس
کو ملائے گا
اور جو شخص صف
کو کاٹے گا تو
اللہ تعالی بھی
اس کو کاٹ دے
گا۔
اور حضرت
براء بن عازب
رضی اللہ عنہ
روایت کرتے
ہوئے کہتے ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:
أقیموا
صفوفکم لا
تخللکم الشیاطین
کأنھا
أولاد
الحذف، قیل یا
رسول اللہ!
وما أولاد
الحذف؟ قیل
سود جرد بأرض
الیمن‘‘ (مسند
احمد: 5 / 262) یعنی
اپنی صفوں کو
برابر کرلو کہ
شیاطین
تمہارے درمیان
اولاد حذف کے
مانند داخل نہ
ہوں، پوچھا گیا
اے اللہ کے
رسول ﷺ حذف کی
اولاد کیا ہے
؟ جواب ملا
ملک یمن میں
بکری کے کالے
بچے ہیں ۔
چونکہ
کھمبوں کے درمیان
صف لگانے سے
قطع صف لازم
آتا ہے، اور
قطع صف سے
رحمت خداوندی
سے محرومی ہوتی
ہے، اس لیے نبی
کریم ﷺ نے کھمبوں
کے درمیان
نماز پڑھنے سے
منع فرمایا۔
معاویہ
بن قرہ کی ایک
روایت میں ہے
ان کے والد
قرہ روایت
کرتے ہیں: ’’کنا
ننھی أن نصف
بین السواري
علی عھد رسول
اللہ ﷺ ونطرد
عنھا طردا‘‘
(سنن ابن ماجہ: 1 /
3، حدیث 1002، صحیح
ابن خزیمہ: 1567، صحیح
ابن حبان: 400) یعنی
ہم عہد نبوی میں
کھمبوں کے درمیان
صف بندی سے
روکے جاتے اور
سختی سے منع
کئے جاتے تھے۔
برادران
اسلام ! غور کریں
کہ صف بندی کی
کتنی سخت تاکید
ہے، پھر
خبردار صف کے
شگافوں کو
مونڈھے سے لیکر
پاؤں تک خوب
بند کردیں یعنی
قدم سے قدم
اور مونڈھا سے
مونڈھا اچھی
طرح ملا کر صف
میں کھڑے ہوا
کریں، اگر آپ
صف کے درمیان
سوراخ اور
شگاف چھوڑ دیں
گے تو رسول اللہ
ﷺ قسم
کھاکر فرماتے
ہیں وہاں شیطان
کھڑا ہوجاتا
ہے اور جب
صفوں میں شیطان
گھس آئے تو
نہ نماز میں
خشوع وخضوع
رہے گا اور نہ
نمازیوں میں
اتفاق ومحبت،
صحابہ کرام ؓ
مونڈھوں سے مونڈھے،
ٹخنوں سے ٹخنے
اور ایڑیوں سے
ایڑیاں ملا کر
کھڑے ہوتے
تھے۔
مسجدوں
کے اماموں سے
اپیل
مسجدوں
کے اماموں کا
فرض ہے کہ سب
سے پہلے وہ فرمان
رسول کے مطابق
صف بندی کرائیں
اور پھر تکبیر
تحریمہ کہیں،
جب تک صف بندی
درست نہ ہو
ہرگز نماز
شروع نہ کریں،
سنت رسول یہی
ہے، ہم ذیل میں
اس سلسلہ کی
چند احادیث
ذکر کرتے ہیں
، ان سے معلوم
ہوگا کہ ہمارے
نبی ﷺ وصحابہ
کرام بحیثیت
امام صف بندی
کا کس قدر
اہتمام کرتے
تھے۔
حضرت
براء بن عازب
رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے وہ
کہتے ہیں:
’’کان رسول
اللہ ﷺ یأتي
ناحیۃ الصف ویسوی
بین صدور القوم
ومناکبھم ویقول
لا تختلفوا
فتختلف
قلوبکم ان
اللہ
وملائکتہ یصلون
علی الصف
الأول‘‘۔ (سنن
ابی داود: 1 / 178، سنن
نسائی: 1 / 257) یعنی
کہ رسول اللہ ﷺ صف کے
کنارے آتے
اور لوگوں کے
سینوں اور
مونڈھوں کو برابر
کرتے ہوئے
کہتے ہیں تم
جدا جدا کھڑا
نہ ہوا کرو، ورنہ
تمہارے دل ایک
دوسرے سے جدا
ہوجائیں گے،
بلاشبہ اللہ
تعالی اور اس
کے فرشتے صف
اول پر رحمت
بھیجتے ہیں۔
حضرت ابو
مسعود رضی
اللہ عنہ کی ایک
روایت میں ہے
وہ کہتے ہیں
:
’’ان رسول
اللہ ﷺ کان یسوی
صفوفنا حتی
کأنما یسوی
بھا القداح،
حتی رأی انا
قد عقلنا عنہ ثم
خرج یوما فقام
حتی کاد یکبر
فرأی رجلا
بادیا صدرہ من
الصف فقال
عباد اللہ
لتسون صفوفکم
أو لیخالفن
اللہ بین
وجوھکم‘‘۔ (صحیح
مسلم مع النووی:
4 / 154)
رسول
اللہ ﷺ ہماری صفیں
بالکل اس طرح
برابر کرتے
تھے کہ گویا
آپ ان سے تیر
کی لکڑی درست
فرما رہے ہوتے
اور یہ سلسلہ
جاری رہا
تاوقتیکہ آپ
نے سمجھا کہ
ہم لوگ آپ سے
اس بات کو
معلوم کرچکے ہیں،
پھر ایک روز
آپ آئے اور
مصلی پر کھڑے
ہوکر تکبیر
کہنے والے تھے
کہ اتنے میں ایک
شخص کو دیکھا
جس کا سینہ صف
سے باہر نکلا
تھا تو فرمایا
اے اللہ کے
بندو! تم ابھی
صفیں ضرور
بالضرور
برابر کرلو،
ورنہ اللہ
تعالی تمہارے
چہروں کے درمیان
مخالفت ڈال دے
گا۔
حضرت عمر
رضی اللہ عنہ
سے صحیح سند
کے ساتھ ثابت
ہے کہ انہوں
نے ابوعثمان
النہدی کے
پاؤں پر مارا
صف درست کرنے
کے لیے۔ (فتح
الباری: 2 / 210)
اور سوید
بن غفلہ سے
ثابت ہے کہ وہ
کہتے ہیں کہ:
’’کان بلال یسوی
مناکبنا ویضرب
أقدامنا في الصلاۃ‘‘ (فتح
الباری: 2 / 210)
حضرت
بلال رضی اللہ
عنہ ہمارے
مونڈھوں کو
برابر کرتے
اور پیروں کو
صف درست کرنے
کے لیے مارتے
تھے۔
ہمارے
ائمہ مساجد کو
صف بندی میں
اس طرح اہتمام
کرنا چاہئے
اور نبی ﷺ اور
صحابہ کرام کی
سنت اختیار
کرکے صف بندی
کے ثمرات سے
مستفید ومستفیض
ہونا چاہئے۔
اللہ تعالی ہم
تمام
مسلمانوں کو
اس کی توفیق
دے، آمین۔