رات میں نماز جنازہ وتدفین جائز ہے

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شر ع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ :

        ۱-  رات میں نماز جنازہ پڑھنا اور میت کو دفن کر نا جائزودرست ہے؟ بعض لوگوںکا کہنا ہے کہ درست نہیں ہے۔

        ۲-  اسی طرح نماز جنازہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کتنی دیر تک رکا رہے۔

        قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب ومنہ الصدق والصواب:

        ۱-  اگر کوئی شخص رات ہی کو مرے اور رات ہی کو اس کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ ہوسکے تو دن کا انتظار نہ کریں، بلکہ رات ہی کو دفن کردیں، رات کو نماز جنازہ پڑھ کر رات ہی کو دفن کرنا احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے کہا: مات رجل وکان رسول اللہ یعودہ فمات باللیل فدفنوہ لیلا، فلما أصبح أخبروہ، فقال: ما منعکم أن تعلمونی؟ قالوا: کان اللیل فکرھنا أن نشق علیک فأتی قبرہ فصلی علیہ‘‘۔ (البخاری: الجنائز، باب الاذن بالجنازۃ، برقم: 1247)

        یعنی ایک صحابی رسول کا انتقال ہوا جن کی رسول اللہ عیادت کیا کرتے تھے، اور لوگوں نے ان کو رات ہی میں دفن کر دیا، صبح کے وقت آپ کو لوگوں نے خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے بتلانے سے تم لوگوں کو کس چیز نے روکا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ رات بہت اندھیری تھی ، ہم نے آپ کو تکلیف دینا پسند نہیںکیا ، توآپ ان کی قبر پر تشریف لے گئے اور نماز جنازہ پڑھی۔ انہیں حضرت ابن عباس سے ایک دوسری روایت ہے کہ ’’ ان رسول اللہ  أدخل رجلا قبرہ لیلا‘‘۔ (ابن ماجہ: الجنائز، باب ما جاء فی الأوقات التی لا یصلی فیھا علی المیت ولا یدفن ، برقم: 1520، وحسنہ الألبانی) یعنی رسول اللہ نے ایک شخص کورات کو قبر میں اتارا۔

        اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت جو مسجد میں جھاڑوں دیا کرتی تھی مرگئی اس کے متعلق کئی دن کے بعد رسول اللہ نے پوچھا تو آپ سے کہا گیا کہ وہ تو انتقال کر گئی ۔ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے کیوں نہیں خبر دی گئی ؟ لوگوں نے اس کو اہمیت نہ دی اور اس کی موت کی خبر رسول اللہ کو دیئے بغیر اسے دفن کردیا۔ (البخاری: الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن، برقم: 1337، ومسلم: الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر، برقم: 2215)

        اور رات ہی میں اس کا جنازہ نکلا، لوگوں نے رسول اللہ کو جگانا ناپسند کیا، صبح کے وقت رسول اللہ کو اس عورت کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ اس عورت کے بارے میں مجھے بتلانا، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ہم نے آپ کو جگانا ناپسند کیا، پھر رسول اللہ نکلے اور لوگوں کے ساتھ اس عورت کی قبر پر صف بندی کی اور چار تکبیریں کہیں۔

        اسی طرح حضرت امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: انہ أخبرہ أن مسکینۃ مرضت فأخبر رسول اللہ بمرضھا وکان رسول اللہ یعود المساکین ویسأل عنھم فقال رسول اللہ : ’’إذا ماتت فاذنوني بھا‘‘ فأخرج بجنازتھا لیلا وکرھوا أن یوقظوا رسول اللہ فلما أصبح رسول اللہ أخبر بالذي کان منھا فقال: ألم آمرکم أن توذنوني بھا؟ قالوا یا رسول اللہ کرھنا أن نوقظک لیلا فخرج رسول اللہ حتی صف بالناس علی قبرھا وکبر أربع تکبیرات۔ (النسائی: الجنائز، باب الاذن بالجنازۃ ، برقم: (1907) وصححہ الألبانی(

        یعنی عوالی مدینہ کی ایک مسکین عورت بیمار تھی، رسول مساکین کی عیادت کرتے اور ان کے حالات دریافت کرتے تھے، آپ نے فرمایا تھا کہ جب مرجائے تو مجھے خبر کرنا، اور وہ رات کو مرگئی، اور دفن بھی کر دی گئی، اور آپ کو خبر نہیں دی گئی۔ صبح کے وقت آپ نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ کو بیدار کر نا ہمیں ناپسند معلوم ہوا۔ تو حضور اس کی قبر پر گئے۔ اور آپ نے نماز جنازہ پڑھی۔

        علاوہ ازیں حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ رات کو فوت ہوئے اور رات ہی کو دفن بھی کے گئے۔ بخاری مع الفتح (۳/۲۵۲) اور مصنف ابن ابی شیبہ (3 / 346، 347) میں ہے: ’’أن أبا بکر توفی عشاء بعد ما غابت الشمس لیلۃ الثلاثاء ودفن لیلا لیلۃ الثلاثاء‘‘ حضرت ابوبکر صدیق منگل کی رات کو سوموار کے دن کا سورج غروب ہونے کے بعد انتقال کئے اور منگل کی رات ہی دفن کئے گئے۔ ان کی نماز جنازہ حضرت عمر فاروق نے مسجد نبوی میں پڑھائی، ان کی قبر میں اترے، حضرت عمر ، عثمان غنی ، طلحہ بن عبید اللہ ، عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم بھی رات ہی میں دفن کئے گئے ہیں۔ اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ کے انتقال کے چھ مہینہ بعد تک زندہ رہیں ، جب وہ فوت ہوگئیں تو ان کے شوہر حضرت علی ؓ نے ان کو رات ہی میں دفن کیا اور ان کے جنازہ کی نماز بھی حضرت علی ؓ نے خود ہی پڑھائی۔ (البخاری : المغازی، باب غزوۃ خیبر، برقم: 4240، 4241)

        پس احادیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ میت اگر ایسے وقت میں فوت ہوا ہے کہ اس کے غسل اور کفن دفن کا انتظام رات ہی میںہوسکتا ہے تو رات ہی میں اس پر جنازہ پڑھ کر دفن کر نا چاہئے۔ دن کا انتظار کر کے تاخیر نہیں کر نی چاہئے، کیونکہ تاخیر سے شریعت نے منع کیا ہے، الا یہ کہ کوئی معقول عذر ہو۔

        ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ جن صحابہ نے رات ہی میں مردوں کو دفن کیا، ان پر رات میں دفن کر نے کے سبب آپ نے نکیر نہیں فرمائی۔ صرف اس بات پر نکیر فرمائی کہ صحابہ نے آپ کو رات میں مردوں کو دفن کر تے وقت خبر کیوں نہیں دی کہ آپ بھی رات میں انہیں دفن کرتے وقت صحابہ کے ساتھ شریک ہو تے پھر بھی آپ نے دن میں ان پر نماز جنازہ پڑھی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک مردہ کی نماز جنازہ مکرر سہ کرر پڑھی جاسکتی ہے۔ ان احادیث سے جس طرح رات میں نماز جنازہ پڑھنے اور رات میں تدفین کا ثبوت ملتا ہے اسی طرح نماز جنازہ میں تکرار کے مانعین کی تردید بھی ہوتی ہے۔

        ۲-  نماز طلوع آفتاب، زوال اور غروب کے وقت جائز نہیں ہے جب سورج طلوع ہونے کے بعد باقاعدہ روشن ہو کر بلند ہو جائے، اسی طرح جب سورج دوپہر کے بعد ڈھل جائے اور اسی طرح سورج اچھی طرح غروب ہوجائے تو اس کے بعد نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ اس پر درج ذیل حدیث دلالت کر تی ہے:

         قال عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ : ثلاث ساعات کان رسول اللہ ینھانا أن نصلی فیھن أو أن نقبر فیھن موتانا حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع وحین یقوم قائم الظھیرۃ حتی تمیل الشمس، وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔ (مسلم: صلاۃ المسافرین ، باب الأوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا، برقم: 1929)

        یعنی حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم کو تین اوقات میں نماز پڑھنے اور قبروں میں اپنے مردوں کی تدفین سے منع کرتے تھے، ایک سورج طلوع ہونے کے وقت جب تک کہ وہ باقاعدہ روشن ہو کر بلند نہ ہو جائے دوسرے زوال سے پہلے دوپہر میںجب آفتاب نصف نہار میں ہو یہاں تک کہ وہ باقاعدہ ڈھل جائے اور تیسرے آفتاب غروب ہونے کے وقت حتی کہ سورج اچھی طرح غروب ہو جائے۔

        حدیث مذکور میںتینوں اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ معلوم ہے کہ نماز جنازہ ایک نماز ہے شیخ علامہ ناصر الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’والحدیث بعمومہ یشمل الصلوۃ علی الجنازۃ وھو الذی فھمہ الصحابۃ۔ (کتاب الجنائز للألبانی ص: 131) اسی طرح مرعاۃ المفاتیح (3 / 454) میں ہے: ھو باطلاقہ یشمل صلاۃ الجنائز لأنھا صلاۃ‘‘ پھر آگے لکھتے ہیںکہ:’’قد علمت ما قدمنا أن صلاۃ الجنازۃ مکروھۃ فی ھذہ الأوقات عند مالک وأحمد وأبی حنیفۃ واستدل ھولاء بحدیث عقبۃ ھذا وغیرہ من الأحادیث المطلقۃ الدالۃ علی کراھۃ الصلاۃ فی ھذہ الساعات خلافا للشافعی والقول الأول ھو الظاھر قال الخطابی: قول الجماعۃ أولیٰ لموافقۃ  الحدیث۔ (مرعاۃ المفاتیح: 3 / 455)

         اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو مسلک شیخ ناصر الدین البانی اور شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانیؔ صاحبان کا ہے وہی چاروں اماموں میں سے امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد اور دیگر صحابہ کرام کا ہے البتہ امام شافعی اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کے مسلک کی تائید حدیث مرفوع کے اطلاق وعموم سے ہوتی ہے۔ اس لئے وہی راجح ہے۔ ہاں اگر حالت اضطرار اور عذر کی بات ہو تو ایسی حالت میں اس حکم کے خلاف بھی عمل ہو سکتا ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی  ؒ فرماتے ہیں کہ ’’لا تجوز الصلوۃ علی الجنائز فی الأوقات التی یحرم الصلوۃ فیھا إلا لضرورۃ‘‘۔( کتاب الجنائز، ص: 131)

 

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس