زکوۃ سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے کسی سے کاشتکاری کے لئے قرض لیا تو کھیتی کاٹنے کے بعد پہلے اس قرض کی ادائیگی کرے گا یا عشر یا نصف عشر ادا کر نے کے بعد پاک مال سے اس قرض کو ادا کرے گا۔

        زید نے کسی شخص سے قرض لیا اور زید کے پاس سونے ، چاندی یا کسی اور شکل میں کوئی اور چیز ہے اور ان چیزوں پر حولان حول ہوگیا ہے تو پہلے ان چیزوں سے اس قرض کی ادائیگی کرے گا یا پہلے زکوۃ ادا کرے گا، تب اس قرض کو ادا کر ے گا؟ کتاب وسنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ تسلی بخش جواب دے کر مشکور ہوں۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:

        صورت مسئولہ میں آپ کے دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے یعنی مقروض شخص پہلے زکوۃ ادا کرے گا یا اپنے اوپر جوقرض ہے اس کی ادائیگی پہلے ضروری ہے تب زکوۃ ادا کرے تو اس کا جواب ملاحظہ ہو:

        قرض ایک بوجھ ہے۔ اس لیے پہلے اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔ دور اندیشی اسی میں ہے کہ مال بچاکر نہ رکھے بلکہ قرض ادا کر دے، اگر کوئی شخص ایسانہیں کرتا تو وہ شخص ’’مطل الغنی ظلم‘‘ (البخاری: الحوالات، باب إن أحال دین المیت علی رجل جاز واذا أحال علی مَلِيّ فلیس لہ رد، برقم: 2288، ومسلم: المساقاۃ ، باب تحریم مطل الغنی ، برقم: 4002) (مالدار کا ٹال مٹول ظلم ہے) کی وعید میں گرفتار ہوجائے گا۔ امام بخاری نے صحیح بخاری (1 / 192) میں لکھا ہے کہ: ’’لا صدقۃ  إلا عن ظھر غنی ومن تصدق وھو محتاج أو أھلہ محتاج أو علیہ دین فالدین أحق أن یقضی من الصدقۃ‘‘ ( البخاری : الزکوۃ، باب ’’ لا صدقۃ الا عن ظھر غنی‘‘۔ امام بخاری کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کے اوپر قرض ہو تو پہلے قرض کی ادائیگی ضروری ہے اس کے بعد صدقہ وزکوۃ اسی طرح ایک حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ :’’ خیر الصدقۃ ما کان علی ظھر غنی‘‘(البخاری: النفقات، باب وجوب النفقۃ علی الأھل والعیال، برقم: 5356) پس قرض دار کو پہلے قرض دینا واجب اور ضروری ہے، لیکن اگر وہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کر تا ہے اور قرض دار کو نہ دے کر زکوۃ دیتا ہے تو اس طرح ٹال مٹول کر نے کی وجہ سے وہ شخص عاصی اور گنہگار ہو گا۔ اس لئے قرض سے پہلے چھٹکارا حاصل کرے، اس کے بعد اگر مال بچتا ہے اور وہ حد نصاب کو پہونچ بھی جائے تب زکوۃ واجب ہوگی۔

 

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس