بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

آمین بآواز بلند کہنے کا ثبوت نصوص قویہ صریحہ سے

 

الحمد للہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین ومن اھتدی بھدیہ إلی یوم الدین، أمابعد:

جن نمازوں میں بالجہر (زور) سے قراء ت کی جاتی ہے (جیسے مغرب، عشاء، فجر) ان میں سورہ فاتحہ ختم ہوتے ہی امام ومقتدی دونوں کو بآواز بلند آمین کہنا مشروع ومسنون ہے، آمین اتنی آواز سے کہی جائے کہ مسجد گونج اٹھے، اس کا ثبوت احادیث مرفوعہ صحیحہ صریحہ اور آثار صحابۂ کرام اور اجماع صحابہ سے ہے۔

 

امام کے آمین بآواز بلند کہنے کے دلائل

1 - امام بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

باب جھر الإمام بالتأمین، ثم ذکر بسندہ عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ قال إذا أمن الإمام فأمنوا، فانہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (صحیح بخاری مع الفتح 2 / 262)

یعنی یہ باب ہے امام کے آمین بالجہر کہنے کا، اس کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگا اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

اس حدیث سے امام کے آمین بالجہر کہنے پر اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ اس کے آمین کہنے پر مقتدی کو آمین کہنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جب امام زور سے آمین نہیں کہے گا تب تک مقتدی کو اس کا علم کیسے ہوگا؟ لہذا اس سے امام کا بآواز بلند آمین کہنا ثابت ہوا۔  قال الحافظ فی الفتح (2 / 264) وجہ الدلالۃ من الحدیث انہ اذا لم یکن التأمین مسموعا للمأموم لم یعلم بہ وقد علق تأمینہ بتأمینہ۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس حدیث کے آخر میں یوں بھی آیا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ وقد روی روح بن عبادۃ عن مالک في ھذا الحدیث: قال ابن شھاب کان رسول اللہ إذا قال: ولا الضآلین جھر بآمین أخرجہ السراج ولابن حبان في روایۃ الزبیدي في حدیث الباب عن ابن شھاب کان إذا فرغ من قراء ۃ أم القرآن رفع صوتہ وقال آمین۔ (الفتح: 2 / 264)

اس کا حاصل یہ ہے کہ جب نبی کریم سورہ فاتحہ کی قراء ت سے فارغ ہوتے تو بآواز بلند آمین کہتے ۔

2 -  عن وائل بن حجر قال: سمعت رسول اللہ قرأ غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین، فقال آمین ومد بھا صوتہ، وبلفظ فجھر بآمین، وبلفظ رفع بھا صوتہ وبلفظ خفض بھا صوتہ وبلفظ أخفی صوتہ۔ (ترمذی، ابوداود، دارمی، وابن ماجہ، دار قطنی، وابن حبان کما فی المرعاۃ: 3 / 156)

حدیث قابل استدلال ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا اور امام منذری نے اس کی تائید کی اور امام ابوداود نے اس پرسکوت اختیار کیا، حافظ ابن حجر نے کہا اس کی سند صحیح ہے، امام دار قطنی  ؒ نے بھی اس کو صحیح کہا اور کئی علمائے احناف نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے، جیسے علامہ عبدالحق دہلوی  ؒ ، شیخ ابوالطیب سندھی  ؒ، شیخ سراج احمد سرہندی  ؒ ۔ (المرعاۃ: 3 / 256)

حدیث کا ترجمہ: یعنی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم کو سنا کہ انہوں نے ’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ تلاوت فرمائی، پھر آپ نے آمین کہا اور کلمہ آمین کے ساتھ اپنی آواز دراز (بلند) کی ، بعض روایت میں  جھر بھا صوتہ ہے یعنی آمین کے ساتھ جہر کیا اور بعض روایت میں  رفع بھا صوتہ ہے، یعنی آمین کے ساتھ اپنی آواز بلند کی اور بعض روایت میں  خفض بھا صوتہ ہے، یعنی آمین کے ساتھ اپنی آواز پست کی، اور ایک روایت میں  أخفی بھا صوتہ ہے، یعنی اپنی آمین کی آواز خفی بمعنی ہلکی کی، والحدیث یفسر بعضہ بعضا۔ ان الفاظ میں کوئی تعارض نہیں ہے، حدیث کا ہر لفظ دوسرے لفظ کی تائید کرتا ہے، اور ان کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ایک معتدل آواز سے آمین کہی، آواز نہ بہت زیادہ بلند تھی نہ بہت کم کہ سنی ہی نہ جاسکے، کیونکہ ہر لفظ کے ساتھ سننے کا ذکر ہے۔

علامہ ابن الہمام حنفی لکھتے ہیں:

’’ ولو کان أتی في ھذا شيء لوفقت بأن روایۃ الخفض یراد بھا بقرع العنیف وروایۃ الجھر بمعنی قولھا في ذیر الصوت۔ (فتح القدیر: 1 / 207)

یعنی اگر آپ کے بارے میں پوچھا جائے تو میں دونوں روایتوں میں تطبیق دے سکتا کہ آہستہ سے آمین کہنے والی روایت سے یہ مراد ہے کہ بہت زور کی آواز نہ ہو اور جہر کی روایت سے یہ مراد ہے کہ گونجتی ہوئی آواز ہو، بہر صورت آواز ہی سے کہنا ثابت ہوا۔

3 - عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ إذا فرغ من قراء ۃ أم القرآن رفع صوتہ وقال آمین۔ (دار قطنی ص 127، مستدرک حاکم: 1 / 223)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام دار قطنی نے کہا اس کی سند حسن ہے، اور حاکم نے کہا کہ یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق ہے، یعنی صحیح ہے اور امام بیہقی نے حسن صحیح کہا ہے اور حافظ ابن القیم نے کہا کہ امام حاکم نے بسند صحیح روایت کہا ہے، بہرحال حدیث حسن ہے اور حدیث حسن قابل احتجاج ہوتی ہے۔ (مرعاۃ: 3 / 152)

ترجمۂ حدیث: یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم جب ام القرآن (سورہ فاتحہ) کی تلاوت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور آمین کہتے۔

4 - عن أبي ھریرۃ قال کان رسول اللہ إذا تلا غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین قال آمین، حتی یسمع من یلیہ من الصف الأول، ولفظ ابن ماجہ إذا قال غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین قال آمین حتی یسمعھا أھل الصف الأول فیرتج بھا المسجد۔ (ابو داود، ابن ماجہ، الحمیدی کما فی المرعاۃ: 3 / 152)

علامہ نیموی  ؒ ابو داود کی حدیث کو حسن لغیرہ اور حمیدی کی حدیث کو مرفوع صحیح کہا ہے۔ لہذا یہ حدیث بھی قابل استدلال ہے۔ (المرعاۃ: 3 / 152)

حدیث کا ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم جب  غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین تلاوت فرما چکتے تو آمین اتنی آواز سے کہتے کہ ان سے قریب والی صف کے لوگ آمین کی صدا سن لیتے، ابن ماجہ کی روایت میں اس قدر اضافہ ہے کہ اس سے مسجد گونج اٹھتی ۔

5 - عن أم الحصین انھا صلت خلف رسول اللہ فلما قال ولا الضآلین، قال آمین فسمعتہ وھي في صف النساء۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی سنن میں اس کی تخریج فرمائی ہے اور حافظ ابن حجر اور امام زیلعی اور علامہ عینی  ؒ نے اس کو ذکر کرنے کے بعد سکوت فرمایا جو تصحیح کی دلیل ہے۔ (دیکھئے المرعاۃ 3 / 252، رسول اکرم کا صحیح طریقۂ نماز ص: 289 – 291)

حدیث کا ترجمہ: حضرت ام الحصین  ؒ نے نبی کریم کے پیچھے نماز پڑھی، پس جب نبی   ولا الضآلین تک پہنچے تو آمین کہی جسے مائی صاحبہ ام حصین نے سنا حالانکہ وہ عورتوں کی صف میں تھیں۔

6 - عن علي رضي اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ یقول آمین، إذا قرأ غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔ (مستدرک حاکم ، ابن ماجہ ) یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ (المرعاۃ: 3 / 153) یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم کو آمین اس وقت کہتے ہوئے سنا جب آپ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضآلین تلاوت فرمائی ۔

علامہ سندھی لکھتے ہیں:  والسماع بدل علی الجھر یعنی سننا جہر پر دلالت کرتاہے، بلکہ ایک روایت میں ہے کہ  رفع بھا صوتہ بآمین یعنی آمین کے ساتھ اپنی آواز بلند کی ۔

 

امام ومقتدی دونوں کے بآواز بلند آمین کہنے کے دلائل:

یہ وہ نصوص واضحہ صریحہ ثابتہ ہیں، جو امام کے بآواز بلند آمین کہنے پردلالت کرتی ہیں، اب ان روایتوں کو پیش کررہے ہیں جو امام ومقتدی دونوں کے آمین بالجہر کہنے پر دلالت کرتی ہیں۔

امام بخاری  ؒ لکھتے ہیں:

1 - باب جھر المأموم بالتأمین، ثم ذکر بسندہ عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ ان رسول اللہ قال إذا قال الإمام غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین، فقولوا آمین، فانہ من وافق قولہ قول الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (صحیح بخاری مع الفتح 2 / 266)

یعنی مقتدی کے آمین بالجہر کہنے کا بیان (اس کی دلیل ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لیے کہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہوگا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

اس حدیث میں امام بخاری نے امام کے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے اور اس کی توجیہ گذر چکی ہے، اور اسی سے مقتدی کے آمین بالجہر کہنے پر بھی استدلال فرما رہے ہیں، وہ اس طرح سے کہ اس حدیث میں لفظ قول وارد ہے، اور وہ علی الاطلاق بغیر کسی قید کے جہر پر استعمال ہوتا ہے، یعنی  ’’فقولوا آمین‘‘ کا معنی ہوا بالجہر آمین کہو اور ایک دوسرا طریق استدلال یہ ہے۔ امام کا آمین بالجہر کہنا ثابت شدہ امر ہے کما مر۔ اور مقتدی کو اپنے امام کی متابعت کا حکم حدیث میں موجود ہے،  کما قال النبي صلوا کما رأیتموني أصلي وقال انما جعل الإمام لیؤتم بہ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے امام کی طرح تم بھی جہری نماز میں جہرا آمین کہو، بہرحال اس حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ امام ومقتدی دونوں آمین بالجہر کہیں۔

قال الحافظ ابن حجر قال النین بن المنیر مناسبۃ الحدیث للترجمۃ من جھۃ أن في الحدیث الأمر بالتأمین والقول إذا وقع بہ الخطاب مطلقا حمل علی الجھر ومتی أرید بہ الاسرار أو حدیث النفس قید بذلک، وقال ابن رشید أخذ المناسبۃ من جھات منھا انہ تقدم ان المأموم مأمور بالاقتداء بالامام وقد تقدم ان الامام یجھر فلزم جھرہ بجھرہ۔ (صحیح البخاری مع الفتح: 2 / 266، 264)

2 - عن نعیم المجمر قال: صلیت وراء أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ فقرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم ثم قرأ بأم القرآن حتی إذا بلغ ولا الضآلین فقال آمین، فقال الناس: آمین۔ الحدیث ۔۔ وفي آخرہ وإذا سلم قال والذي نفسي بیدہ اني لأشبھکم صلاۃ برسول اللہ ۔ (اخرجہ النسائی والدار قطنی، المرعاۃ: 2 / 152، رسول اکرم کا صحیح طریقۂ نماز ص 283) اس کی سند صحیح ہے۔

یعنی نعیم مجمر نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، تو موصوف ابو ہریرہ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی پھر موصوف نے ام القرآن (سورہ فاتحہ) پڑھی اور جب موصوف ولا الضآلین پر پہونچے تو موصوف ابو ہریرہ نے آمین کہی اور تمام مقتدیوں نے بھی آمین کہی، حدیث کے آخر میں ہے کہ حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرنے کے بعد فرمایا، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بلاشبہ میں نبی کریم کی نماز میں تم سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں۔

اس حدیث صحیح سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم بحیثیت امام جہری نماز میں آمین بالجہر کرتے تھے، دوسری یہ کہ صحابہ وتابعین حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے پیچھے آمین بآواز بلند کہتے تھے۔

3 - عن داود بن قیس عن منصور بن میسرۃ قال: صلیت مع أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ فکان إذا قال ولا الضآلین قال آمین حتی یسمعنا فیؤمن من خلفہ۔ (مصنف عبد الرزاق: 2 / 95 – 96)

یعنی منصور بن میسرہ نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو موصوف ابو ہریرہ  ؓ جہری نماز میں جب سورہ فاتحہ کے خاتمہ پر ولا الضالین کہتے تھے تو اس قدر آمین بالجہر کہتے تھے کہ اپنی آمین والی آواز ہم مقتدیوں کو سنا دیتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی بھی ان ہی کی متابعت میں آمین کہتے ۔

4 - صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی فرمان نبوی منقول ہے کہ ’’وإذا قال الإمام ولا الضآلین فقولوا آمین، ولا ترفعوا قبلہ‘‘۔ (صحیح مسلم مع النووی مطبوع أصح المطابع دہلی: 1 / 177)

یعنی جہری نماز میں جب امام سورہ فاتحہ کی قرأت ختم کرتے ہوئے  ولا الضآلین کہے تو اے مقتدیو! تم آمین کہو مگر آمین کہنے کے لیے تم اپنی صدائے آمین امام سے پہلے مت بلند کرو۔

5 - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’ما حسدتکم الیھود علی شيء ما حسدتکم علی السلام والتأمین‘‘ (صحیح ابن ماجہ ص 697، الصحیحہ: 284، صحیح الترغیب والترہیب: 1 / 328) یعنی یہود تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا اسلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں۔

جس طرح یہاں اسلام سے جہرا سلام کہنا مراد ہے اسی طرح آمین سے آمین بآواز بلند کہنا مراد ہے، اس لیے کہ یہودیوں کو سلام وآمین بالسر سے چڑ نہیں تھی بلکہ بالجہر سے چڑ تھی۔ (نبی اکریم کا صحیح طریقۂ نماز ص 288)

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:

6 - ’’أمن ابن الزبیر ومن وراء ہ حتی ان للمسجد للجۃ‘‘ (صحیح البخاری مع الفتح 3 / 264، مصنف عبد الرزاق: 2 / 96، اوسط لابن المنذر: 3 / 132، عمدۃ القاری: 6 / 48)

یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ مقتدیوں نے اس قدر اونچی آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی ۔

7 - عن عطاء قال: أدرکت مائتین من أصحاب النبي في ھذا المسجد إذا قال الإمام غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔ (عمدۃ القاری للعینی: 6 / 48، وفتح الباری لابن حجر: 2 / 267، سنن بیہقی: 2 / 659، نبی اکرم کا صحیح طریقۂ نماز ص 302)

یعنی حضرت عطاء فرماتے ہیںکہ میں نے اس مسجد حرام میں دو سو صحابۂ کرام کو پایا کہ جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضآلین کہتے تو میں نے ان کی آمین کی گونج دار آواز سنی (یعنی ان کی آواز سے مسجد گونج اٹھی ) یاد رہے کہ حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ امام اعظم ابو حنیفہ کے استاد تھے اور ان کا کہنا ہے کہ  ’’ما رأیت مثلہ‘‘ (یعنی میں نے ان جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا)

8 - حضرت عطاء کے ہم سبق حضرت عکرمہ نے کہا :

’’أدرکت الناس ولھم رجۃ في مساجدھم بآمین إذا قال الإمام غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2 / 425) یعنی میں نے لوگوں کو پایا اس حال میں کہ جب امام مسجدوں میں نماز کے دوران سورہ فاتحہ پڑھ چکتا تو جہری نماز میں سارے کے سارے لوگ بآواز بلند آمین کہا کرتے تھے۔

حضرت عطاء اور ان کے ہم سبق حضرت عکرمہ دونوں کے دونوں کبار تابعین عہد عثمانی وعہد مرتضوی میں موجود تھے، ان کی طرف سے یہ تصریح کہ ان کے زمانہ میں امام ومقتدی سب سورہ فاتحہ کے بعد آمین بالجہر کہتے تھے، اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ بات سنت متواترہ کے طور پر چلی آرہی ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وبہ یقول غیر واحد من أھل العلم من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم، یرون أن یرفع الرجل صوتہ بالتأمین ولا یخفیھا۔ (مرعاۃ: 3 / 151)

یعنی آمین بالجہر کے قائل بہت سے اہل علم صحابہ وتابعین وتبع تابعین تھے، وہ اس بات کو جائز سمجھتے تھے کہ آدمی اپنی آواز کو آمین کے ساتھ بلند کرے اور اس کا اخفا نہ کرے۔

شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ مبارکپوری رقمطراز ہیں کہ:

وبہ قال الشافعي وأحمد واسحاق وھو القول القوي المعول لأنہ لم یثبت في الاسرار بالتأمین وترک الجھر بہ شيء لا عن رسول اللہ ولا عن أحد من الصحابۃ۔ (مرعاۃ: 3 / 151)

یعنی اس (آمین بالجہر ) کے قائل امام شافعی وامام احمد وامام اسحاق رحمہم اللہ بھی ہیں اور یہی قول راجح قوی اور قابل اعتماد ہے، اس لیے کہ آمین بالسر اور اس کو بآواز بلند نہ کہنے کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں، نہ نبی کریم سے اور نہ صحابۂ کرام میں سے کسی صحابی سے۔

 

دیگر علمائے کرام وعلمائے احناف کے اقوال

ابن قدامہ اسی کے قائل ہیں ۔ (المغنی 2 / 162) حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محکم صحیح سنت یہی ہے کہ نماز میں آمین کو اونچی آواز سے کہا جائے۔ (اعلام الموقعین: 2 / 396) علامہ شوکانی اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ (نیل الاوطار: 2 / 48) اور علامہ عبد الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں کہ اونچی آواز سے آمین کہنے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ (تحفۃ الاحوذی: 2 / 79) اور علامہ ابن حزم  ؒ رقمطراز ہیں کہ امام ومقتدی دونوں اونچی آواز سے آمین کہیں گے کیونکہ اسی طرح رسول اللہ سے ثابت ہے۔ (المحلی: 2 / 295) اور علامہ صدیق حسن خان قنوجی لکھتے ہیں کہ اونچی آواز سے آمین کہنا پست آواز سے کہنے سے زیادہ بہتر ہے۔ (الروضۃ الندیۃ: 1 / 272) علامہ عبد الحي لکھنوی حنفی تحریر فرماتے ہیں کہ حق یہی ہے کہ اونچی آواز سے آمین کہنا دلیل کے اعتبار سے قوی ہے ۔ (التعلیق الممجد ص 101، السعایۃ: 13631)، علامہ ابن الہمام حنفی فرماتے ہیں کہ اونچی آواز سے آمین کہنا سنت ہے۔ (فتح القدیر: 1 / 107) اور علامہ رشید احمد گنگوہی حنفی فرماتے ہیں کہ احناف بھی آمین بالجہر کے معترف ہیں۔ (فتاوی رشیدیہ ص 280، فتاوی شامی: 1 / 134)

 

پیران پیر حضرت شاہ عبد القادر جیلانی کا فتوی

حضرت پیر سید شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو بہت بڑے عالم اور ولی گذرے ہیں ، اپنی کتاب غنیۃ الطالبین ص 10 میں فرماتے ہیں:  والجھر بالقراء ۃ وآمین۔ (مغرب، عشاء، فجر) کی نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت کرنا اور اونچی آواز سے آمین کہنا چاہئے۔