چرم قربانی کا مصرف

 

        قربانی کے کھالوں کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ ذاتی مصرف میں لائے جاسکتے ہیں یا غریب ونادار ہی اس کے مستحق ہیں، سوال اس امر میں ہے کہ کھالوں کو بیچنے کے بعد اس رقم کو دینی کاموں مثلا لائبریری میں کتب کی فراہمی، دینی مدرسہ (جس میں قیام و طعام کا نظم نہیں ہے) میں خرچ کرنا، دینی مدرسہ کے اساتذہ کی تنخواہ وغیرہ دینااز روئے کتاب و سنت کیسا ہے؟

        ۲۔ تملیک کی کیا حقیقت ہے؟ اکثر دینی اداروں میں زکوۃ، صدقات، چرم قربانی وغیرہ کی رقم جو کہ صرف نادار وغریب لوگوں کا حق ہے کسی غریب کی ملکیت میں دے کر پھر اس سے بطور عطیہ لے لیا جاتا ہے، اب اس رقم کو، ادارے کی تعمیر، عملے کی تنخواہ وغیرہ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔

        آنجناب سے التماس ہے کہ کتاب وسنت کے حوالہ سے مذکور ہ سوالوں کا مفصل جواب دے کر عنداللہ ماجور اورعندالناس مشکورہوں۔فجزاک اللہ احسن الجزاء

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:

        چرم قربانی کی قیمت کو اپنے مصرف میں لانا جائز نہیں ، بلکہ یہ فقراء ومساکین کا حق ہے، لہذا اسی مصرف میں خرچ کیا جائے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’امرنی رسول اللہ أن اقوم علی بدنہ و أن أتصدق بلحومھا وجلودھا وأجلتھا وأن لا اعطی الجزار منھا وقال: نحن نعطیہ من عندنا۔‘‘(البخاری، الحج، باب یتصدق بجلودالھدی، برقم 1717 ومسلم واللفظ لہ، الحج ،باب الصدقہ بلحوم الھدایا، برقم 3180)

        یعنی مجھے نبی کریم نے حکم دیا کہ میں آپؐ کی قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال کروں او ران کے گوشت ، کھالوں، اور جھولوں کو فقراء ومساکین میں صدقہ کردوں اور ان میں سے کچھ بھی قصاب کو بطور اجرت نہ دوں۔

        راوی حدیث صحابی ؓ یا نبی کریم نے فرمایا کہ ہم قصاب کو اجرت اپنی طرف سے دیا کرتے تھے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چرم قربانی اور اس کی قیمت کا مصرف مساکین وفقراء ہیں۔ قربانی کرنے والا نہیں۔ چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں کہ:

        والراجح ھو ماذھب الیہ الشافعی واحمد لقولہ : لا تبیعوا لحوم الھدی والأضاحی وکلوا وتصدقوا واستمتعوا بجلودھا ولا تبیعوھا وان اطعمتم من لحومھا شیئا فکلوہ ان شئتم۔ (أخرجہ احمد ، قال الھیثمی فی مجمع الزوائد: ھو مرسل صحیح الاسناد ولقولہ من باع جلد أضحیتہ فلا اضحیۃ لہ‘‘ (اخرجہ الحاکم وقال صحیح الاسناد۔ (مرعاۃ المفاتیح: 5 / 121)

        یعنی میرے نزدیک صحیح مسلک وہی ہے جس کو امام احمد واما م شافعی رحمہ اللہ نے اپنایا ہے، یعنی قربانی کے جانوروں کا کچھ حصہ بھی نہ بیچا جائے، اس لئے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ھدی اور قربانی کے جانوروں کے گوشت کو نہ بیچو او رکھائو وصدقہ کردو، ان کی کھال سے فائدہ اٹھاؤ لیکن نہ بیچو۔ اور ان میں سے کھانا، کھلانا چاہتے ہو تو کھائو اور کھلاؤ، اس لئے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی قربانی کے جانور کی کھال کو بیچے گا اسے قربانی کا ثواب نہیں ملے گا۔ یا قربانی ہی قبول نہ ہوگی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث اور ان دونوں احادیث سے چرم قربانی بیچنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے لیکن اگر بیچ دیا تو اسے اپنے مصرف میں نہیں لاسکتا اور شاید اس لئے اس کی ممانعت ہے۔ ورنہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ قربانی کی کھال بیچ کر صدقہ کردیا جائے۔

        اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لائبریری میں کتب کی فراہمی، دینی مدرسہ میں خرچ کرنا، دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی تنخواہ وغیرہ دینا جائز ودرست نہیں ہے۔ ہاں اگردینی مدارس میں غریب طلباء یا مدرسین ہوں تو ان پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔

        ۲۔ یہ ایک حیلہ غیر شرعیہ اور غیر ضروریہ ہے، جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت اور آثار صحابہ کرام میں نہیں ملتا ہے، اس لئے یہ جائز نہیں ہے، اور اس کے اختیار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ مدرسے کے منتظمین اس مدرسہ کے ضرورت مند طلباء کے سر پرست ونگراں ہیں اور یہ حضرات اپنے غریب ومحتاج طلباء پر خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔

        لہذا بغیر تملیک خرچ کرنے میں کوئی شرعی قباحت وممانعت نہیں ہے۔ آخر خود نبی کریم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین اموال زکوۃ وصول کرتے تھے، اور خود ہی فقراء ومساکین اور اہل استحقاق پر خرچ کرتے تھے، ان ادوار ذھبیہ میں کبھی یہ حیلہ اختیار کیا گیا اور نہ اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حدیث میں ہے کہ:’’توخذ من اغنیاء ھم وترد علی فقراء ھم‘‘ ۔ (البخاری، المغازی باب بعث ابی موسی ومعاذ الی الیمن قبل حجۃ الوداع، برقم 4347 ومسلم، الإیمان، باب الدعاء إلی الشھادتین وشرائع الإسلام، برقم ۱۲۱)

        یعنی مسلمان مالداروں سے زکوۃ وصول کی جائے اور مسلمان فقراء میں خرچ کیا جائے، خود نبی کریم و دیگر خلفائے راشدین اموال صدقات اپنے ہاتھوں تقسیم کرتے تھے۔

        لہذا یہ تملیک کی صورت ایک حیلہ غیر شرعیہ اور غیر ضروریہ ہے۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس