غیر باپ کی طرف انتساب کا مسئلہ

 

        کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

        زید و بکر آپس میں ہم زلف ہیں، بکر نے زید کے بیٹے عمر کو شیر خواری کے ایام ہی میں اپنی کفالت میں لے لیا ہے بکر عمرکو اپنی ولدیت کے ساتھ عمرابن بکر ظاہر کرتا ہے، او راسکول و دیگر جگہوں کے رکارڈ (Records)میں اس کا نام اپنی ولدیت کے ساتھ عمر ابن بکر لکھانے کا ارادہ رکھتا ہے، کیا بکر کا ایسا کرنا جائز ہے؟

        برائے مہربانی مذکورہ سوال کا جواب قرآن وسنت کی روشنی میں دے کر عنداللہ ماجور ہوں، اور سائل کو ممنون فرمائیں۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:

        صورت مسئولہ میں واضح ہونا چاہئے کہ بکر کا اس طرح کا اقدام شرعاً حرام اور ناجائز ہے، اور عقل ودانش اور عرف کے بھی خلاف ہے، اللہ کے نبی حضرت محمد نے اس طرح انتساب کو حرام وکفر اور دخول جہنم کا باعث قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ:

        قال سعد بن ابی وقاص سمعت اذنی من رسول اللہ وھو یقول من ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام۔ (البخاری الفرائض باب من ادعی الي غیرابیہ برقم 6766).

        یعنی حضرت سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے باپ کا دعویدار ہو اور وہ یہ جانتے ہوئے کرے تو اس پر جنت حرام ہوگی، او راسی طرح حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’لیس من رجل ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم الا کفر‘‘ (البخاری المناقب برقم 3508 ومسلم الإیمان باب بیان حال إیمان من قال لأخیہ المسلم یا کافر برقم 217) یعنی جو کوئی بھی اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے کے بجائے دوسرے کی طرف منسوب ہوگا اور یہ عمداً وقصدا کرے گا تو وہ کفر کا ارتکاب کرے گا، ایک اور حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے کہ: ان رسول اللہ قال: لاترغبوا عن ابائکم فمن رغب عن ابیہ فھوکفر‘‘ (البخاری الفرائض باب من ادعی الی غیرابیہ برقم 6766 ومسلم الإیمان باب بیان حال إیمان من رغب عن ابیہ وھو یعلم برقم 218) یعنی تم لوگ اپنے آباواجداد سے اعراض نہ کرو، جوا پنے باپ سے اعراض کرکے دوسروں کی طرف منسوب ہوگا وہ کافر ہے۔

        ان تینوں حدیثوں کا مفاد ایک ہی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنے حقیقی والد کی طرف منسوب ہو۔ دوسروں کی طرف منسوب ہونا حرام ہے،  ایسے شخص پر جنت حرام ہے، اور یہ بات بھی ہے کہ اس طرح کا فعل مناسب بھی نہیں ہے۔ پیدا کرے کوئی اور انتساب کسی اور کی طرف ہو، دور جاہلیت میں اور آغاز اسلام میں یہ رائج تھا، لیکن قرآن کا حکم آیا کہ تم اپنے حقیقی آباء کی طرف نسبت کرو۔ارشاد ربانی ہے:’’ادعوھم لآبائھم ھو اقسط عند اللہ‘‘(الاحزاب: 15) لے پالکوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کرکے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔

        یہ آیت کریمہ اس مسئلہ میں بالکل واضح اور صریح ہے، احادیث نبویہ بھی اس مفہوم کی صراحت کررہی ہیں۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس