جن گن من پڑھنا جائز نہیں

 

        چند سطور آپ کی خدمات میں تحریر کر رہا ہوں بایں مقصد کہ مجھے قومی ترانہ ’’جن گن من‘‘ کی ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے جس میں اس ترانہ کو شرک سے پاک بتایا گیا ہے، تو کیا ایسی صورت میں اس ترانہ کو پڑھنے میں کوئی حرج ہے يا نہیں؟ علماء کرام اور مفتیان عظام اس قومی ترانہ کے پڑھنے کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں، مجھے امید ہے کہ اس سلسلے میں جامعہ سلفیہ کا فتوی روانہ کرنے کی کوشش کریں گے، میں اس لیٹر کے ساتھ اس ترانہ کی تشریح کی کاپی روانہ کر رہا ہوں۔ جزاکم اللہ أحسن الجزاء

 

الجواب بعون اللہ الوھاب

        اس ترانہ کی منتہائے نظر اگرچہ کوئی انگریز حکمراں نہ ہو مگر یہ واضح ہے کہ اس کا لکھنے والا موحد نہیں ہے اس کے یہاں معبود ان باطلہ اور ارباب متفرقہ کے انکار اور ایک رب حقیقی کی عبادت کا تصور نہیں ہے وہ اپنے عقیدہ کے مطابق جس کو وہ اپنا  رب مان رہا ہے اس کو پکار رہا ہے اور اس سے دعا کر رہا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیںہے کہ وہ اس ترانہ کے تعلق سے کسی خوش فہمی کا شکار ہوکر اس کو پڑھنے اور گانے کا جواز ڈھونڈے۔

        ہمارا مذہب اسلام شرک کی جڑوں کو مٹانے اور لوگوں کے دلوں میں عقیدہ توحید کو راسخ کرنے کے لئے آیا ہے حتی کہ شرک کی احتمالی جگہوں سے بھی ایک مسلمان کو دور رہنے کی ترغیب بالکل صاف اور واضح ہے، ایک ایسا شاعر جو اپنے مذہب اور عقیدہ کے اعتبار سے کھلا ہوا مشرک ہے وہ اپنے ترانہ کے اندر بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والا نہ معلوم کس کو قرار دے رہا ہے۔

        ’’تیرا نام ہی پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا، علاقوں کے دلوں میں جگتا ہے، دراوڑ،اتکل اور بنگال میں بھی، جمنا اور گنگا کے پانی میں یہی رواں دواں ہے‘‘۔ ترانہ کا یہ حصہ کچھ ایسا ہے کہ شاعر ان الفاظ کے ذریعہ یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ اس کا مزعوم ومدعو ’’خدا یا رب‘‘ کا نام گنگا اور جمنا کے پانی میں بھی رواںدواں ہے جبکہ اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ آسمان وزمین، دریا وپہاڑ اور دنیا کی تمام مخلوقات اللہ واحد کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں، انہیں دیکھ کر اللہ کی عظیم قدرت کا اندازہ لگایا جائے گا۔ ارشاد ربانی ہے’’ومن آیاتہ خلق السماوات والأرض واختلاف السنتکم وألوانکم ان فی ذلک لآیات للعالمین‘‘(الروم: 221) ’’اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمان اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے دانش مندوں کے لئے اس میں یقینا بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔

        قرآن مقدس کے اندر بے شمار آیات کے اندر اللہ تعالی نے مختلف عظیم مخلوقات کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیاں قرار دیا ہے ان مخلوقات کے بارے میں یہ کہنا تو قطعی درست ہے کہ یہ اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں ہم انہیں دیکھ کر اللہ کو اور اللہ کی بے انتہا طاقت اور عظیم حکمت اور قدرت کا اندازہ لگا سکتے ہیں مگر یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ان مخلوقات کے اندر رب کا نام رواں دواں ہے۔ اس قسم کی تعبیرات مبہم اور غیر مناسب ہیں، مسلمان اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے رب کو بالکل واضح الفاظ یعنی لفظ ’’اللہ‘‘ یا اس کے اسمائے حسنی کے ذریعہ پکاریں نہ کہ مبہم اور غیر واضح کلمات کے ذریعہ۔ ارشاد ربانی ہے ’’وللہ الأسماء الحسنی فادعوہ بھا وذروا الذین یلحدون فی أسمائہ سیجزون ما کانوا یعملون‘‘ (الاعراف: 180) ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں تو تم انہیں ناموں کے ساتھ اللہ کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی‘‘۔

        اس ترانہ میں بار بار لفظ ’’جیا‘‘ کو دہرایا گیا ہے اس لفظ کا ترجمہ’’ زندہ باد‘‘،’’نام باقی رہے‘‘ وغیرہ الفاظ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ لفظ ’ جے جے‘ مشرکین اپنے بتوں اور معبودوں کے لئے استعمال کرتے ہیں مثلا ً ’’جے رام‘‘،’’جے بھگوان‘‘، ’’جے بھارت‘‘ وغیرہ ، اگر ہم بھی یہ لفظ اپنی زبان سے ادا کریں تو تشبہ بالکفار لازم آئے گا اور ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تشبہ بالکفار سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد نبوی ہے’’ من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ (ابوداؤد ،حدیث نمبر: 4031 وصححہ الالبانی)

        ہمارے برادران وطن کا یہ اصرار ہے کہ ہندوستان میں رہنے والا چاہے وہ جس مذہب کا بھی ماننے والا ہو ہر شہری اس ترانہ کا احترام کرے اور ترانے کا احترام ان کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے گانے کے وقت با ادب کھڑا رہا جائے، عموماً یہ ترانہ قومی جھنڈا لہرانے کے وقت پڑھا جاتا ہے جھنڈا کے نیچے پھول بکھیرے جاتے ہیں اور وہاں لوگ باادب دست بستہ کھڑے رہتے ہیں یہ حالت وکیفیت اسلامی عقیدہ اور توحیدی مزاج کے خلاف ہے بلکہ غیر اللہ کے سامنے باادب کھڑا ہونے کے مشابہ ہے۔

        مذکورہ نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پورے شرح صدر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ ترانہ ہم مسلمانوں کے لئے پڑھنا اور اسے گانا جائز ودرست نہیں ہے، ہمارا ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ کے مطابق اپنے رب سے دعائیں مانگیں۔ ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اپنا یہ جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اپنے مذہب اور طریقہ کے مطابق اور ماثور دعاؤں کے ذریعہ اپنے رب کو پکاریں اور اس ترانہ کو پڑھنے سے احتراز کریں۔ ھذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس