عدت کا معاملہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
ایک شخص نے ایک عورت سے عقد نکاح کیا او راس سے ملاقات کرنے سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوگیا تو کیا عورت کو عدت گذارنا ضروری ہے؟ بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ اس عورت کی شوہر سے ملاقات نہیں ہوئی ہے، اس لئے اس پر کوئی عدت نہیں ہونی چاہئے۔
لہذا آپ سے گذارش ہے کہ اس کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:
جس عورت کا شوہر عقد نکاح کے بعد اور اس سے ملاقات سے پہلے ہی فوت ہوگیا ہو۔ اس عورت پر بھی عدت وفات گذارنا اور سوگ منانا ضروری ہے، کیونکہ صرف عقد نکاح سے وہ مکمل طورپر بیوی ہوگئی۔ اس کی دلیل اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:’’والذین یتوفون منکم ویذرون أزواجاً یتربصن بأنفسھن أربعۃ اشھر وعشرا‘‘ (سورۃ البقرۃ: 236) تم میں سے جو لوگ انتقال کر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے کو چار ماہ دس دن روکے رکھیں، یعنی عدت گذاریں۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’لا یحل لامرأۃ تومن باللہ والیوم الآخر ان تحد علی میت فوق ثلاث لیال إلا علی زوج أربعۃ أشھر وعشرا‘‘ (البخاری: الطلاق، باب مراجعۃ الحائض (5334) مسلم: الطلاق: باب وجوب الاحداد فی عدۃ الوفاۃ (1491)
یعنی کسی عورت کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ہاں شوہر پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی، اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بروع بنت واشق کے متعلق جس سے اس کے شوہر نے عقد نکاح کیا او راس سے ملاقات کرنے سے پہلے انتقال کر گیا۔ فیصلہ کیا کہ اس کو عدت وفات گذارنی واجب ہے، اور وہ میراث کی بھی حقدار ہوگی۔ (أبوداود، النکاح، باب من تزوج ولم یسم لھا صداقا حتی مات وصححہ الألبانی (2114) اس حدیث کو ترمذی (1145) اور نسائی (3354) نے بھی روایت کیا ہے۔
تمام تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مذکورہ عورت کو عدت وفات گذارنی ہوگی۔
دارالإفتاء
جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)
بنارس