قبرستان میں جوتا چپل پہن کر جانا
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ:
۱۔ قبر کی زیارت کرتے وقت چپل پہن کر قبرستان جانا جائز ہے یانہیں؟
۲۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ فاتحہ پڑھنے قبرستان گئے تھے فاتحہ خوانی کی اصطلاح صحیح ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میںمدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ بہت نوازش ہوگی۔
الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:
۱۔ قبر کی زیارت کے لئے چپل پہن کر قبرستان جانا بالکل جائز ودرست ہے، کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں اور جواز پر دلالت کرنے والی دلیل بھی موجود ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ:
’’قال رسول اللہ ﷺ: العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی وذھب أصحابہ حتی أنہ لیسمع قرع نعالھم‘‘ (البخاری، الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال: 1338 ومسلم صفۃ الجنۃ ونعیمھا: 7216)
’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب میت کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے احباب واصحاب واپس ہو جاتے ہیں تو یہ مردہ ان کی جوتیوں کی آوازیں سنتا ہے‘‘۔
شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفیہ دلیل علی جواز المشی بالنعال فی القبور، لکونہ صلی اللہ علیہ وسلم قالہ واقرہ فلو کان مکروھا لبینہ وقال أیضا: حدیث أنس یدل با طلاقہ علی جواز المشی بین القبور فی النعال السبتیہ وغیرھا لعدم الفارق بینھا وبین غیرھا۔
اس میں اس کی دلیل ہے کہ جوتی پہن کر قبرستان میں جایا جاسکتا ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ نے اس کی تقریرفرمائی ہے، نکیر نہیں، اور مزید فرماتے ہیں خواہ جوتی بال والی کھال سے بنی ہو یا بے بال سے بنی ہو یا کسی نوع کی ہو۔ بلا استثناء ہر نوع کی جوتی پہن کر قبرستان میں جاسکتے ہیں کیونکہ بعض لوگ دونوں میں فرق کرتے ہیں ۔ لیکن فرق کی کوئی دلیل نہیں۔
بہر حال قبرستان میں جوتی پہن کر جانا جائز ودرست ہے، کراہت وممانعت یا فرق کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہے۔
۲۔ فاتحہ خوانی کی اصطلاح صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ بدعی اصطلاح ہے، کیونکہ یہ لفظ محدث ہے، اور فاتحہ خوانی سے مراد سورۃ فاتحہ اور چاروں قل اور درود شریف وغیرہ پڑھنا ہے اور بوقت زیارت قرآن خوانی جائز ودرست نہیں ہے، کیونکہ سنت رسول ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔ اور اگر دعا ہی مراد ہو تو لفظ دعاء استعمال کرنے میں کیا قباحت وحرج ہے، جو سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے۔
دارالإفتاء
جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)
بنارس