فوٹو گرافی کی حرمت

 

        کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

        نکاح خوانی کے وقت فوٹوگرافی، ویڈیو گرافی از روئے شرع جائز ہے یا نہیں؟

        قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:

        نکاح خوانی کے وقت یا کسی دوسرے موقع پرکسی بھی ذی روح (جاندار) کی تصویر کشی شرعاً حرام ہے، ’’یعنی کسی شدید ضرورت کے وقت جائز ہے‘‘ ۔ فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی بھی تصویر کشی ہی ہے، لہذا یہ حرام اور ناجائز ہے، نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے:’’ان أشد الناس عذابا عند اللہ یوم القیامۃ المصورون‘‘(البخاری، اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامۃ برقم: 5950 ومسلم، اللباس والزینۃ، باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان برقم: 5537) یعنی بروز قیامت شدید ترین عذاب میں تصویر کش ہوں گے۔ اسی طرح صحیح بخاری میں ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ’’نھی النبی عن ثمن الدم وثمن الکلب وکسب البغی، ولعن الواشمۃ والمستوشمۃ وآکل الربا و مؤکلہ ولعن المصور۔‘‘ (البخاری، اللباس، باب من لعن المصور برقم: 5962) یعنی نبی کریم نے منع فرمایا ہے دم مسفوح (بہتا ہوا خون) کی قیمت سے، کتے کی قیمت سے، زانیہ کی مخصوص کمائی سے، اور اللہ کے رسول نے لعنت فرمائی ہے سود لینے دینے والے پر، اور گودنے اور گودوانے والی عورت پر اور تصویر کش پر۔

        تصویر کشی کی حرمت پر دلالت کرنے والی احادیث ان کے علاوہ اور بھی ہیں۔ ہم نے بنظر اختصار اسی پر اکتفاء کیا ہے، علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ ان احادیث صریحہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’وفی ھذہ الأحادیث وما جاء فی معناھا دلالۃ ظاھرۃ علی تحریم التصویر لکل ذی روح وأن ذلک من کبائر الذنوب المتوعد علیھا بالنار‘‘ (مجموع فتاویٰ الشیخ ابن باز: 2 / 802) یعنی یہ احادیث اس بات پر دلات کرنے میں واضح ہیں کہ ہر ذی روح کی تصویر کشی مطلقا حرام ہے، اور یہ گناہ کبیرہ ہے، جس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

        اس لئے تمام مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ تصویر کشی جیسی حرام وناجائز چیزوں سے پرہیز کریں۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس