نماز جنازہ میں دو سلام یا ایک سلام

 

        کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرا جائے یا ایک طرف؟ اس مسئلہ کے بارے میں راجح وافضل مسلک کیا ہے۔

        نوٹ: جبکہ اس مسئلہ کے بارے میں میں نے کچھ کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کیا ہے جیسے سرل پتھـ  (Saralpath) (بنگلہ زبان میں) جو جمعیت اہل حدیث مغربی بنگال کا ایک ماہانہ ادبی، دینی ،ثقافتی ومدلل سوال وجواب کا ایک رسالہ ہے جس کے نگراں ومدیرتجمل حق السلفی ہیں۔ شیخ عبد اللہ السلفی وانور الحق الفیضی ودیگر سلفی ومدنی علماء کرام بھی اس مجلہ سے جڑے ہوئے ہیں۔

        اس رسالہ میں اس مسئلہ کے بارے میں دومرتبہ فتوی شائع ہوا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف سلام پھیرنا ہی راجح وافضل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے اور دونوں طرف سلام پھیرنے کے بارے میں کوئی حدیث صحیح سند کے ساتھ مروی نہیں ہے۔

        اور آپ نے جو فتوی دیا ہے، اس میں جو حدیث دونوں طرف سلام پھیرنے کے بارے میں درج کی گئی ہے اس کو فتاوی علمیہ جلد اول صفحہ 539 سے 545 میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

        اور ساتھ میں وہ فتوی بھی بھیجا جا رہا ہے جو سرل پتھـ  (Saralpath)میں شائع کیا گیا تھا۔

        لہٰذا آپ تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے پھر سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث التسلیم علی الجنازۃ مثل التسلیم فی الصلاۃ کی تخریج کے ساتھ مدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

 

الجواب بعون اللہ الوہاب وھو الموفق للصواب:

        صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ نماز جنازہ  نماز ہی ہے اور ہر نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو سلام کرتے تھے اور کبھی کبھی ایک سلام پر اکتفا کرتے تھے یعنی ایک سلام فرض ہے اور دوسرا سلام مسنون ہے اس لئے نماز جنازہ میں دو سلام مشروع ومسنون ہیں اور ایک سلام پر اکتفاء کرنا جائز ہے۔

        محدث عصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

        ثم یسلم تسلیمتین مثل تسلیمہ فی الصلاۃ المکتوبۃ، احداھما عن یمینہ والأخری عن یسارہ، ویجوز الاقتصار علی التسلیمۃ الأولی فقط. (کتاب الجنائز للالبانی ص 127 – 128)

        یعنی نماز جنازہ پڑھنے والا دوسلام کرے، ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب اور اگر ایک ہی سلام پر اکتفاء کرے تو بھی جائز ہے۔

        اور فقیہ العصر علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

        ’’والصحیح انہ لا بأس ان یسلم مرۃ ثانیۃ لورود ذلک فی بعض الأحادیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (الشرح الممتع: 5 / 336)

        یعنی میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ دوسلام کرنے میں کوئی مضائقہ نہیںہے اس لئے کہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض احادیث مروی ہیں۔

        اسی طرح علامہ ومحقق استاذ محترم مولانا محمدرئیس ندوی صاحب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

        ’’ہمارا موقف اس سلسلہ میں یہ ہے کہ نماز جنازہ میں امام بالجہر دونوں طرف سلام پھیرے،اصل طریق سلام نماز جنازہ میں ہمارے نزدیک یہی ہے لیکن یہ چونکہ سنت ہے اس لئے اس کا التزام فرض نہیں ہے۔ اس کے خلاف اگر کسی نے ایک سلام پر اکتفاء کیا تو بھی نماز بلا کراہت صحیح ہو جائے گی. (نماز جنازہ اور اس کے مسائل ص 146)

        ان حضرات کے علاوہ دیگر بہت سے علمائے محققین کا یہی موقف ہے کہ نماز جنازہ میں دوسلام تومشروع ہیں لیکن اگر ایک سلام پر اکتفاء کیا جائے تو بھی کافی ہے۔

 

اثبات مقدمۂ اولی کہ نماز جنازہ نماز ہی ہے:

        نماز جنازہ نماز ہی ہے اس لئے اس کے بھی وہی ارکان وشروط وآداب ہیںجو دیگر نمازوں کے ہیں، امام بخاری رحمہ نے صحیح بخاری میں اپنی تبویب کے ذریعہ یہی ثابت کیا ہے۔

        ’’باب سنۃ الصـلاۃ علی الجنائز، وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من صلی علی الجنازۃ‘‘ وقال: ’’صلوا علی صاحبکم‘‘ وقال:’’صلوا علی النجاشی‘‘ سماھا صلاۃ لیس فیھا رکوع ولا سجود، ولا یتکلم فیھا، وفیھا تکبیر وتسلیم۔ وکان ابن عمر لا یصلی الا طاھرا ولا یصلی عند طلوع الشمس ولا غروبھا ویرفع یدیہ، وقال الحسن: ادرکت الناس وأحقھم علی جنائزھم من رضوھم لفرائضھم، واذا احدث یوم العید أو عند الجنازۃ یطلب الماء ولا یتیمم، واذا انتھی الی الجنازۃ وھم یصلون یدخل معھم بتکبـیرۃ، وقال انس رضی اللہ عنہ: تکبیـرۃ الواحدۃ استفتاح الصلاۃ، وقال{ولا تصل علی احد منھم مات أبدا} وفیہ صفوف وامام. (صحیح بخاری مع الفتح: 3 / 189 – 190)

        اس عبارت کا ترجمہ وخلاصہ:

        یعنی نماز جنازہ کا طریقہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز جنازہ پڑھی، اور فرمایا کہ تم اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام صورتوں میں نماز جنازہ کو نماز ہی قرار دیا، مگر اس میں رکوع وسجود نہیں (کیونکہ اگر اس میں رکوع وسجدہ بھی ہوتے تو بعض نادان اس صورت کو میت کی عبادت تصور کر سکتے ہیں) نماز جنازہ میں باہم گفتگو ممنوع، اس میں تکبیر تحریمہ اور سلام بھی ہے، حضرت عبداللہ بن عمر نماز جنازہ بغیر پاکی کے نہیں پڑھتے تھے ، اور نماز جنازہ آفتاب کے طلوع وغروب کے وقت بھی نہیں ادا کرتے تھے، نماز جنازہ میں رفع یدین کرتے، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں(صحابہ کرام) کو اس حال میں پایا کہ ان میں نماز جنازہ کے وہی حقدار ہوتے جن کو وہ اپنے پنجگانہ نماز کی امامت کے لئے پسند کرتے تھے، اگر کوئی نماز جنازہ وعید کے وقت بے وضو ہو جائے تو پانی طلب کرے اور تیمم نہ کرے۔ اگر کوئی نماز جنازہ کے وقت آئے اور لوگ نماز جنازہ ادا کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہہ کر شریک ہو جائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں پہلی تکبیر تکبیر تحریمہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ان منافقین میں سے کسی کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھئے جو نفاق کی حالت میں مرا ہو۔ نماز جنازہ میں صفیں بھی لگتی ہیں اور امام بھی ہوتے ہیں۔

        بہرحال اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ نماز جنازہ نمازہی کی ایک نوع ہے اور نماز جنازہ کے احکام وآداب وشروط اور ارکان تقریباً وہی ہیں جو دیگر نمازوں کے ہیں اور اس میں رکوع وسجود کا نہ ہونااس بات کی دلیل نہیں کہ وہ نماز نہیں ہے اس لئے کہ نماز جنازہ سے رکوع وسجود بالاجماع خارج ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض نادان یہ نہ سمجھ لیں کہ ایسی صورت میںمیت کی عبادت وپرستش ہو رہی ہے۔

        فتح الباری ۳/۹۸۱،۲۹۱ میں ہے کہ قال ابن المنیر: مرادہ بما ذکرہ من الآثار والاحادیث ان لھا غیرھا من الصلوات، والشروط والأرکان، وقال ابن المرابط: وانما لم یکن فیھا رکوع ولا سجود لئلا یتوھم بعض الجھلۃ انھا عبادۃ المیت۔

        یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا ان آثار واحادیث کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ اور نمازوں کی طرح نماز جنازہ کے حکم وارکان وشرائط ہیں اور اس میں کسی طرح کا غموض وخفا نہیں، اور رکوع وسجود کا نماز جنازہ میں نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ نماز جنازہ نماز نہیں بلکہ رکوع وسجود اس لئے نہیں کہ بعض جاہل و نادان یہ نہ خیال کر لیں کہ یہ تو میت کی پوجا ہو رہی ہے۔ بہرحال اثبات مقدمات اولی کے لئے اس قدر کافی وافی ہے۔

 

مقدمۂ ثانیہ کا ثبوت:

        ہر نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جانب سلام پھیرتے اور کبھی کبھی ایک سلام پر بھی اکتفاء کرتے تھے۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:

(1) عن عبداللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یسلم عن یمینہ وعن شمالہ: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ(السنن للترمذی،کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی التسلیم فی الصلاۃ: 2958 وأخرجہ أحمد فی مسندہ والنسائی فی سننہ والطحاوی فی شرح معانی الآثار وأبوداود والطیالسی فی سننہ) ان حوالہ حوالہ جات کے لئے دیکھئے  التحقیق فی مسائل الخلاف لابن الجوزی مع التنقیح للذھبی وحاشیتہ 2 / 356) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں دائیں بائیںسلام پھیرتے تھے۔

(2) اس معنی ومفہوم کی احادیث ان کے علاوہ دیگر صحابۂ کرام سے بھی مروی ہیں۔ (دیکھئے التحقیق مع التنقیح: 2 / 357 – 359)

        یہ وہ احادیث شریفہ ہیں جن سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دو سلام کرتے تھے، ایک دائیں اور دوسرا بائیں، خواہ کوئی بھی نماز ہو، نماز فرض ہو کہ سنت، نماز نفل ہو کہ نماز جنازہ، نماز چاشت ہو کہ نماز طلب باراں۔ الغرض کوئی بھی نماز ہو اس عموم میں داخل وشامل ہیں اس لئے کہ حدیث میں کسی بھی نماز کی تخصیص وتقیید نہیں ہے۔ اور یہ قاعدہ مشہور ہے کہ المطلق یجری علی اطلاقہ والعام علی عمومہ الا ان جاء دلیل التقیید والتخصیص۔

(3) عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یسلم فی الصلاۃ تسلیمۃ واحدۃ (أخرجہ الترمذی فی سننہ،الصلاۃ: 296 والطحاوی فی شرح معانی الآثار: 8 / 270 والحاکم فی مستدرکہ: 1 / 230 والبیھقی فی سننہ: 1 / 179 وصححہ ابن خزیمۃ: 729، والحاکم علی شرط الشیخین ووافقہ الذھبی، وصححہ الألبانی فی صفۃ صلاۃ النبی: 65 والارواء: 2 / 33 اور دیکھئے التحقیق مع التنقیح والحاشیۃ: 2 / 260)

        یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک سلام بھی کرتے تھے، اس حدیث میں بھی نماز سے مراد نماز ہے، اس لئے کہ اس میںکسی نماز کی قید نہیں (والمطلق یجری علی اطلاقہ بدون مانع) قاعدہ کے مطابق تمام نمازوں کے لئے یہ حکم عام ہے۔ بہرحال ان دونوں حدیثوں کو پیش نظر رکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دو سلام مسنون ہیں اور ایک سلام فرض وواجب ورکن ہے، اس صورت میں دونوں حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔

        نماز سے مراد عام نماز ہے۔ اس کی دلیلیں حسب ذیل ہیں:

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مفتاح الصلاۃ الطھور وتحریمھا التکبـیر وتحلیـلھا التسـلیم(اخرجہ الشافعی فی الأم: 1 / 100، وأحمد فی مسندہ: 1 / 123 – 139، والدارمی فی سننہ: 1 / 175، والترمذی: 1 / 89 (۳) وأبوداود 16، وابن ماجه: 275، التحقیق مع التنقیح والحاشیۃ بھی ملاحظہ ہو۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

        یعنی مطلق نماز کی کنجی محض پاکی ہے اور مطلق نماز میں داخل ہونے کا ذریعہ محض تکبیر تحریمہ ہے اور اس سے نکلنے کا ذریعہ محض سلام ہے۔

        اس حدیث میں نماز سے مراد مطلق نماز ہے۔ یعنی جس طرح عام نمازوں کے لئے پاکی شرط ہے اسی طرح نماز جنازہ کے لئے بھی، اسی طرح جس طرح عام نمازوں کے لئے تکبیر تحریمہ رکن ہے اسی طرح نماز جنازہ کے لئے بھی، اور جس طرح عام نمازوں سے خروج کے لئے سلام ضروری ہے اسی طرح نماز جنازہ کے لئے بھی سواء بسواء۔

(2) اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’لا تقبل صلاۃ بغیر طھور ولا صدقۃ من غلول. (أخرجہ الترمذی فی سننہ (۱) کتاب الطھارۃ، باب ما جاء لا تقبل صلاۃ بغیر طھور، وأبوداود فی سننہ (۹۵) کتاب الطھارۃ، باب فرض الوضوء)

        یعنی کوئی بھی نماز بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی جو بغیر پاکی کی پڑھی جائے، اسی طرح کوئی صدقہ قبول نہ ہوگا جو مال حرام سے دیا جائے۔

(3) اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے’’لاصلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب(بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب القراء ۃ للامام والمأموم فی الصلاۃ کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت (756)

        یعنی جس نے نماز میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی کوئی نماز صحیح نہیں (بلکہ باطل وفاسد ہے) خواہ نماز فرض ہو کہ نفل، خواہ نماز سری ہو کہ جہری، امام کی نمازہو کہ مقتدی یا منفرد کی، نماز چاشت ہو کہ نماز جنازہ۔

        ان عبارتوں سے مقصود یہ ہے کہ جب مطلق صلاۃ کا ذکر ہو تو اس سے ہر نوع کی نماز مراد ہوگی۔ فرض ونفل ونماز جنازہ وغیرہ، نماز جنازہ کو اس مطلق سے خارج کرنے کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے اور یہاں زیر بحث مسئلہ میں قرینہ مفقود ہے، لہٰذا نماز میں نماز جنازہ بھی داخل وشامل ہے۔

        ہم نے جو دو مقدمے بیان کئے ان میں ایک مقدمہ یہ تھا کہ نماز جنازہ بھی نماز کی ایک نوع ہے اور دوسرا مقدمہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عام نمازوں میں دو سلام کرتے تھے اور کبھی ایک سلام پر بھی اکتفاء کرتے تھے اور یہ دونوں مقدمے بالکل صحیح ہیں کما مر تحقیقہ۔ ان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بالکل آسان ہے کہ نماز جنازہ میںدو سلام مشروع ومسنون ہیں ان میں سے ایک فرض ورکن ہے۔

 

نماز جنازہ میں دو سلام کے ثبوت کے لئے دوسرا طریقہ استدلال:

        نماز جنازہ دوسری نمازوں کی طرح ہے اور دوسری نمازوں میں بالاتفاق دو سلام مشروع ہیں اور ان میں ایک سلام واجب یا فرض ہے کما نص علیہ کثیر من المحققین کما فی المرعاۃ: 3 / 399، شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’والحق ان المشروع تسلیمتان فقط لکل مصل والواحدۃ منھا رکن لا تجزیٔ الصلاۃ الا بھا والتسلیمۃ الثانیۃ سنۃ، یدل علی ذلک الاحادیث الواردۃ فی المسألۃ، وفیہ جمع بین الاخبار وأقوال الصحابۃ رضی اللہ عنھم فی ان یکون المشروع والمسنون تسلیمتین والواجب واحدۃ، وقد دل علی صحۃ ھذا الاجماع الذی حکاہ ابن المنذر والنووی فلا یعدل عنہ‘‘.

        یعنی شیخ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک حق یہ ہے کہ ہر مصلی (نمازی) کے لئے صرف دوسلام مشروع ہیں، ان میں ایک رکن ہے، اس کے بغیر نماز کفایت نہیں کرے گی اور دوسرا سلام سنت ہے چنانچہ اس مسئلہ پر وارد احادیث دلالت کرتی ہیں، اس صورت میں تمام احادیث اور اقوال صحابہ میں تطبیق وتوفیق ہو جاتی ہے یعنی دوسلام مشروع ومسنون ہیں اور ان میں ایک واجب ہے۔ اس کی صحت پر اجماع امت بھی دال ہے جیسے علامہ ابن منذر اور امام نووی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ لہٰذا نماز جنازہ میں بھی دو سلام مشروع ہوںگے، اور ایک واجب وفرض۔

        اگر کوئی کہے کہ یہ تو نص کے مقابلے میں قیاس ہے اور قیاس نص کے مقابلے میں مردود ہوتا ہے، لہٰذا یہ بھی مردود ہے کما قال ابن قدامۃ المقدسی فی المغنی: 3 / 418 – 419، والشیخ ابن باز فی فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: 3 / 389، 39، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس نہیں بلکہ تنظیر وتمثیل ہے اور یہ نص کے مقابلے میں نہیں بلکہ نص ہی سے مستفاد ہے۔اس لئے حافظ ابن حزم فرماتے ہیں: وأما التسلیمتان فھی صلاۃ، وتحلیل الصلاۃ التکبیر والتسلیمۃ الثانیۃ ذکر وفعل خیر(المحلی: 5 / 128، یعنی نماز جنازہ میں دو سلام مسنون ہیں اس لئے کہ وہ بھی نماز ہی ہے اور دوسرا سلام ذکر وکار خیر ہے۔ اگر نماز میں دو سلام سے زیادہ ہوتا تو فعل خیرہونے کی وجہ سے دو سے زیادہ سلام کیا جا سکتا لیکن اس سے زیادہ کا ثبوت نہیں اسی لئے اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے، علامہ ابن حزم ان اہل علم میں سے ہیں جو قیاس کے قائل نہیں، انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب المحلی میں واضح انداز میں اس کی تردید کی ہے لیکن تنظیر وتمثیل کو نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ صورت مبحوث عنہا میں تمثیل وتنظیر سے کام لیاگیا ہے نا کہ قیاس سے اس لئے یہاں یہ قاعدہ نہیں چل سکتا کہ یہ قیاس ہے اور قیاس نص کے مقابلہ میں ہو تو مردود ہوتا ، یعنی مجھے پہلا مقدمہ تسلیم نہیں۔

        جو حضرات اس صورت کو قیاس قرار دیتے ہیںانہیں درج ذیل نصوص پرغور وتامل کرنا چاہئے۔

(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ یا أیھا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوھکم وأیدیکم إلی المرافق وامسحوا برؤسکم وأرجلکم إلی الکعبین‘‘(المائدۃ: 6) یعنی اے ایمان والو!جب تم نماز کے لئے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں اورہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے قدموں کو ٹخنوں سمیت دھولو۔

(2) ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ ’’لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘(بخاری: 756) یعنی اس شخص کی کوئی نماز صحیح نہیں ہوتی جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔

(3) اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مفتاح الصلاۃ الطھور وتحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلیم‘‘(صحیح أبی داود: 577) یعنی نماز کی کنجی پاکی ہے اور اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام ہے۔

(4) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان مسیٔ الصلاۃ کے بارے میں ہے:’’اذا قمت الی الصلاۃ فاسبغ الوضوء ثم استقبل القبلۃ فکبر(بخاری: 625) یعنی جب تو نماز کا ارادہ کرے تو مکمل وضو کر، پھر استقبال قبلہ کر اور تکبیر تحریمہ کر۔

        ان نصوص سے نماز کے لئے وضو، قرأت فاتحہ، سلام، استقبال قبلہ اور تکبیر تحریمہ کا وجوب ثابت ہوا، اب اگر نماز سے مراد عام نماز ہو جس میں نماز جنازہ بھی شامل ہو تو ایسی صورت میں نماز جنازہ کے لئے مذکورہ امور واجب ہوں گے، اور اگر نماز جنازہ نماز میں داخل تصور نہ کیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ نماز جنازہ عام نمازوں کی طرح ہے لہٰذا جس طرح عام نمازوں میں یہ احکام ضروری ہیں اسی طرح نماز جنازہ میں بھی، یہ تمثیل وتنظیر ہے نہ قیاس، ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کو ماننا لازم ہے ورنہ نماز جنازہ میں ان احکام کا ثبوت بطور وجوب نہ ہوگا، اس طرح ہم کہیںگے کہ نمازوں میں جس طرح دو سلام مسنون ہیں اور ان میں ایک واجب اسی طرح نماز جنازہ میں بھی دوسلام مسنون ومشروع ہیں اور ان میں سے ایک واجب، بہرکیف یہ مسئلہ اس قدر صاف وواضح ہے کہ اسے مزید واضح کرنے کی ضرورت نہیں، پھر ہم اطمینان خاطر کے لئے نماز جنازہ میں سلام سے متعلق کچھ نصوص پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان پر جو اعتراضات ہیں ان کا بھی جواب شافی دیں گے ان شاء اللہ ،وما توفیقی الا باللہ۔

 

نماز جنازہ میں دوسلام کی صریح دلیلیں:

        ۱ - ثلاث خلال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یفعلھن، ترکھن الناس، احداھا التسلیم علی الجنازۃ مثل التسلیم فی الصلاۃ،أخرجہ الطبرانی فی الکبیر (10022) والبیھقی فی السنن 4 / 43 بسندیھما من طریق زید بن انیسۃ عن حماد بن زید عن ابراھیم عن ابن مسعود قال،سندہ حسن کما قال الالبانی فی احکام الجنائز ص 127 وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد 3 / 34 رواہ الطبرانی ورجالہ ثقات، وقال النووی فی المجموع 5 / 235، اسناد جید، وقال المحقق زھیر شاویش وشعیب ارناؤط  فی ھامش شرح السنۃ للبغوی: 5 / 346 – 347، حدیث حسن وقال المحققان شعیب أرناؤط وعبد القادر ارناؤط فی حاشیۃ زاد المعاد: 1 / 491 اسنادہ حسن وقال الدکتور محمد ضیاء الرحمن اعظمی فی المنۃ الکبری: 3 / 65 ھذا الحدیث حسن وللحدیث شواھد أخری.

        ان محققین علمائے کرام کے تحقیقی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث کم ازکم حسن درجہ میں ہے اور حدیث حسن سے استدلال درست ہے کما قال بہ جماھیر المحدثین، نیز اس کے شواہد بھی ہیں، امام نووی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

        ’’ ثم الحسن کالصحیح فی الاحتجاج بہ وان کان دونہ فی القوۃ اور اس عبارت کی شرح امام سیوطی اس طرح کرتے ہیں کہ: ولا بدع فی الاحتجاج بحدیث لہ طریقان لو انفرد کل منھما لم یکن حجۃ کما فی المرسل ، اذا ورد من وجہ آخر سندا او وافقہ مرسل آخر بشرطہ‘‘(التقریب مع التدریب ص 125)‘‘ یعنی حدیث حسن بھی حدیث صحیح کی طرح قابل استدلال ہیں، امام سیوطی فرماتے ہیں کہ اگر کسی حدیث کے دوطرق ہیں تو اس سے استدلال کرنے میں کوئی قباحت نہیں حالانکہ ہر ایک طریق قابل احتجاج نہیں، جس طرح مرسل حدیث ضعیف ہے لیکن یہ حدیث اگر کسی دوسرے طریق سے مسنداً یا مرسلاً مروی ہو تو وہ قابل احتجاج ہو جاتی ہے۔

        2 -  حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

        ’’صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی جنازۃ فسلم عن یمینہ وعن شمالہ‘‘ (أخرجہ الطبرانی فی المعجم الاوسط: 4334 وفی مجمع البحرین: 1296 وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد 3 / 141، أخرجہ الطبرانی فی المعجم الکبیر ایضا، رجالہ کلھم ثقات الا خالد بن نافع، امام ابو زرعہ اور امام نسائی نے ان کی تضعیف کی ہے اور امام ابو حاتم نے شیخ لیس بقوی یکتب حدیثہ کہا ہے (دیکھئے میزان الاعتدال ولسان المیزان والجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ترجمہ خالد بن نافع)

        یعنی حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں وبائیں سلام کیا۔

        یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے اس لئے کہ اس کی سند میں خالد بن نافع ضعیف ہے لیکن بطور شاہد پیش کی جا سکتی ہیں، امام ابو حاتم کا قول یکتب حدیثہ اس پر دال ہے، شواہد ومتابعات میں اس قدر ضعف مضر نہیں ہے، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ویدخل فی المتابعات والشواھد روایۃ من لا یحتج بہ (التقریب والتدریب ص 27) یعنی متابعات وشواہد میں ان حضرات کی بھی روایت داخل ہو سکتی ہے جو قابل احتجاج نہیں ہیں، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس طرح کی روایتیں بکثرت ہیں۔

        3 -  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ایک شاہد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کی حدیث بھی ہو سکتی ہے، امام بیہقی  اور ابوبکر شافعی نے اپنی سندوں سے بطریق شریک عن ابراھیم الھجری نے بیان کیا ہے۔ابراھیم الھجری فرماتے ہیں کہ : أمنا عبداللہ علی جنازۃ علی ابنتہ فکبر اربعا فمکث ساعۃ حتی ظننا انہ سیکبر خمسا ثم سلم عن یمینہ وعن شمالہ، فلما انصرف، قلنا لہ: ما ھذا؟ قال: انی لا ازید کم علی ما رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصنع(سنن بیہقی 4 / 43) الغیلانیات لابی بکر الشافعی کما فی العون 8 / 514، شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: واسنادہ ضعیف من اجل الھجری، کتاب الجنائز ص 121، لیکن اتنی ضعیف نہیں کہ بطور شاہد بھی پیش نہیں کی جا سکتی ہو کما قال استاذنا مولانا محمد رئیس الندوی رحمہ اللہ فی نماز جنازہ اور اس کے مسائل ص 148.

 

نماز جنازہ میں حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی دو سلام والی حدیث پر تنقیدات اور اس کے جوابات:

        نماز جنازہ میں دو سلام سے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن لنفسہ ورنہ کم از کم حسن لغیرہ تو ضرور ہے اور حسن کی دونوں قسمیں محدثین کے نزدیک قابل احتجاج اور لائق استدلال ہیں کما لا یخفی علی المتبحر علی ذلک۔ لیکن اس کے باوجود کچھ اہل علم نے مختلف نوع کی جرحیں کی ہیں لیکن میری نظر وتحقیق میں یہ جرحیں لائق اعتناء نہیں ہیں، پھر بھی چونکہ ان سے بعض اہل علم وفضل متاثر ہوئے ہیں یا ہو سکتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان جرحوں کو ایک ایک کرکے نقل کر وں اور ان کا جواب شافی دوں وباللہ التوفیق۔

1 - پہلا اعتراض:  اس حدیث کی سند میں حمادبن سلیمان واقع ہیں اور وہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ زید بن انیسہ کا سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔ حافظ ہیثمی بذات خود لکھتے ہیں : لا یقبل من حدیث حماد الا من رواہ عنہ القدمائ: شعبۃ ، سفیان الثوری والدستوائی ومن عدا ھؤلاء روی عنہ بعد الاختلاط، یعنی حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو اس سے قدیم شاگردوں (شعبہ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی) نے بیان کی ہے، ان تینوں کے علاوہ سب نے اختلاط کے بعد ہی روایت کی ہے۔ (مجمع الزوائد: 4 / 119، 120، فتاوی علمیہ: 1 / 544)

 

اس اعتراض کا جواب:

        معترض کے اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ حماد بن ابی سلیمان مختلط راوی ہیں، اور ہر مختلط کی روایت قابل رد ہے ، یہ قابل تسلیم نہیں لہٰذا ان کی روایت بھی قابل رد ہے اس لئے کہ یہ پتا نہیں کہ حماد بن ابی سلیمان سے زید بن انیسہ کا سماع قبل الاختلاط ہے یا بعد الاختلاط، ان میں پہلا مقدمہ تو صحیح ہے کہ حماد بن ابی سلیمان آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے کما صرح بہ ابن سعد فی طبقات 6 / 332 حیث قال: قالوا: کان حماد ضعیفا فی الحدیث فاختلط فی آخر امرہ، وکان مرجئا وکان کثیر الحدیث، اسی طرح امام احمد بن حنبل نے بھی حماد کو مختلط قرار دیا ہے کمافی تہذیب الکمال للمزی 7 / 172، 272، لیکن کیا ہر مختلط کی روایت قابل رد ہے اس میں نظر ونقص ہے کما سیاتی فی المقدمۃ الثانیۃ علی وجہ النقص۔

        قال العلائی فی کتاب المختلطین: اما الرواۃ الذین حصل لھم الاختلاط فی آخرھم فھم علی ثلاثۃ اقسام، احدھا من لم یوجب ذلک لہ ضعفا اصلا ولم یحط من مرتبتہ اما لقصور مدۃ الاختلاط وقلتہ کسفیان بن عیینۃ واسحاق بن ابراھیم وھما من ائمۃ اسلام المتفق علیھم واما لم یرو شیئا حال اختلاطہ فسلم حدیثہ من الوھم کجریر بن حازم وعفان بن مسلم وغیرھما والثانی من کان متکلما فیہ قبل الاختلاط فلم یحصل من الاختلاط الا زیادۃ ضعفہ کابن لھیعۃ ومحمد بن جابر السحیمی وغیرھما، والثالث من کان محتجا بہ ثم اختلط او عمر فی آخر عمرہ فحصل الاضطراب فیما روی بعد ذلک فیتوقف الاحتجاج علی التمییز بین ما حدث بہ قبل الاختلاط عمن رواہ بعد ذلک۔

        اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہر مختلط کی روایت قابل رد نہیں لہٰذا دوسرا مقدمہ مخدوش ہونے کی وجہ سے قابل احتجاج نہیں۔

        لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ بعض مختلط کی روایت قابل رد ہے، اس کی شکل یوں ہوگی: حماد بن ابی سلیمان مختلط ہیں اور بعض مختلط کی روایت قابل رد ہے اور حماد چونکہ مختلطین میں شامل ہیں اس لئے وہ قابل رد ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ حماد بن ابی سلیمان مختلط ہیں اور بعض مختلط کی روایت قابل رد نہیں ہوتی ہے کما مر تحقیقہ لہٰذا حماد قابل رد نہیں ہیں۔

مزید توضیح:  امام ہیثمی کے اصول کی بنیاد پر اگر ہر مختلط روایت رد کر دی جائے تو حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ رد کرنا لازم آئے گا، اس لئے ابن حبان نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ:

        وکذلک حکم ھؤلاء الاحتجاج بھم فیما وافقوا الثقات وما انفردوا مما روی عنھم القدماء فی الثقات الذین سماعھم منھم قبل الاختلاط سواء. (صحیح ابن حبان: 1 / 121، الکواکب النیرات ص 11)

        یعنی جن حضرات نے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے وہ بالکل قابل قبول ہے اسی طرح مختلطین کی وہ روایتیں بھی قابل حجت ہیں جن میںثقات کی موافقت کی ہے اور ان کی منفرد روایتیں جو قدماء سے نقل کی ہیں یہ سب صورتیں قابل احتجاج ہونے میں برابر ہیں۔

        چونکہ حماد بن ابی سلیمان نے اس روایت میں ثقات کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ ان کی موافقت کی ہے، کما مر ذلک فی تحقیق التسلیمتین۔

        اس لئے کہ اسی طرح معمولی اختلاط کو اہل علم واصول نے قابل اعتناء نہیں سمجھا بلکہ یہ اصول مقرر کیا کہ جن کی تخلیط معمولی ہوگی ان کی روایت قبول کی جائے گی اور جن کی تخلیط بہت زیادہ ہوگی ان کی روایت قبول نہیں کی جائے گی اور جن کی تخلیط درمیانی ہوگی اور ان کی ر وایت میں ثقات کی مخالفت نہ ہوگی ان کی روایت قبول کی جائے گی۔

        حماد بن ابی سلیمان کے بارے میں ڈاکٹر قاسم علی سعد فی مناھج الامام ابو عبد اللہ النسائی فی الجرح والتعدیل فی شأن حماد بن ابی سلیمان میں بڑی تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

        خلاصۃ القول ان حماد بن ابی سلیمان ثقۃ فیما روی عنہ القدماء من الثقات، صحیح الحدیث وھو فیما سوی ذلک مما لم یستنکر علیہ صدوق حسن الحدیث، ولیس ھذا لانہ من المکثرین. (مناھج الإمام النسائی فی الجرح والتعدیل: 20 / 697)

2 - دوسرا اعتراض:  حماد بن ابی سلیمان اور ابراہیم نخعی مدلسین میںسے ہیں اور ان کی روایت تدلیس کی صورت میں ناقابل قبول ہوتی ہے۔

        اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں مدلسین میں سے تو ضرور ہیں لیکن طبقہ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی تدلیس مضر نہیں، اس بارے میں علائی کی مختلطین اور حافظ ابن حجر کی طبقات المدلسین اور الکواکب النیرات ملاحظہ ہو اور خاص طور پر ڈاکٹر قاسم علی سعد کی مناھج الامام فی الجرح والتعدیل۔

        بہرحال یہ حدیث حسن ہے اور حدیث حسن قابل استدلال ہے اور چونکہ اس کے متعدد طرق ہیں اس لئے اگر ضعیف بھی ہو تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن لغیرہ ضرورہے اور حسن لغیرہ سے بھی عند المحدثین احتجاج واستدلال درست، لیکن علامہ زبیر علی زئی چونکہ حسن لغیرہ سے استدلال درست قرار نہیں دیتے اس لئے انہوں نے کہا ایک سلام میرے نزدیک راجح ہے۔ یہ ان کا اپنا اصول ہے محدثین کا نہیں تدبر فافھم۔ یعنی یہ حسن لغیرہ سے استدلال نہیں کرتے جبکہ عام محدثین کا طریقہ یہ ہے کہ حسن کی دونوں قسموں سے استدلال کرتے ہیں۔

        جو حضرات ابوامامہ باہلی وغیرہ کی روایتوں سے نماز جنازہ میں ایک سلام پر استدلال کرتے ہیں، یہ روایتیں ہمارے موقف کے معارض نہیں، یعنی ایک سلام واجب وفرض ہے اور دوسلام مشروع ومسنون لہٰذا دونوں قسم کی روایتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔

        ابوامامہ باہلی رضی اللہ کی حدیث بہت سے محققین نے صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کے تمام طرق کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تسلیمۃ کا اضافہ عبدالرزاق صاحب المصنف کے علاوہ کسی نے نہیں کیا ہے اور ان ہی سے ابن الجارود نے منتقی میں نقل کیا ہے۔ اس لئے اس لفظ کے شاذ ہونے میں تردد ہے۔ حدیث ابوامامہ کے تمام طرق کے لئے درج ذیل کتابیں دیکھیں:

(تحفۃ الاشراف: 2 / 138، 161، السنن الکبری للنسائی 2 / 449.

        بہرحال میرے نزدیک دلائل کی بنیاد پر نماز جنازہ میں دونوں سلام مشروع ہیں لیکن ایک سلام واجب وضروری ہے، جو حضرات ایک ہی سلام صحیح سمجھتے ہیں اور دو کو نہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل حصر ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال وافعال میں، ا یک ہی سلام کے انحصار کی بات کہنا شریعت پر اضافہ ہے اس سے احتراز ضروری ہے اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو حضرات ایک سلام کے قائل ہیں کیا اسے صرف مسنون کہتے ہیں یعنی نماز جنازہ سے خروج کے لئے ضروری نہیں تو اس مقام پر گفتگو ہی بے کار ہے لیکن اگر وجوب سمجھتے ہیں تو حدیث ابو امامہ اس معنی کی دوسری حدیثیں اس پر دال نہیں کیونکہ کسی میں حکم نہیں یا ایسا لفظ نہیں جو وجوب پر دلالت کرتا ہے، ایسی صورت میں حدیث عموم کی طرف رجوع لازم ہوگا تاکہ نماز کی طرح نماز جنازہ میںسلام کو واجب قرار دیا جا سکے۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس