طلاق وحلالہ کے احکام ومسائل

خالص کتاب وسنت اور اقوال ائمۂ اجلہ کی روشنی میں

 

        ان الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، أما بعد: فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم : یٰأیھا الذین آمنوا أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولي الأمر منکم فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول ۔۔۔ الخ  ( النساء: 95)

        اسلام میں نکاح کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ مرد وعورت دونوں کی عصمت وعفت ہر قسم کی بے حیائی اور بد اخلاقی کی گندگیوں سے محفوظ ہو جائے۔ اس لئے قرآن حکیم میں شادی شدہ مرد کو’’محصن‘‘ اور شادی شدہ عورت کو’’محصنہ‘‘کہا گیا ہے۔ نکاح سے اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو اور کوئی گھر امن وراحت، محبت والفت کی جنت بننے کی بجائے اضطراب وبے چینی وبے اعتمادی، بغض وعناد، جنگ وجدال کی جہنم بن جائے تو پھر اسلام اس بندھن کو توڑکر مرد کو ’’طلاق‘‘ کا اختیار اور عورت کو ’’خلع‘‘ کا حق دے کر اس قسم کے نکاح کی بیڑیوں کو توڑدینے کا حکم دیتا ہے۔ اور اس کو یہ ہدایت بھی کرتا ہے کہ اگر طلاق دینا ہی پڑے تو شرعی طریقہ پر طلاق دے، یعنی حالت طہر میں (ماہواری کے بعد پاکی کی حالت میں) دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے مجامعت نہ کی ہو۔ یا حالت حمل میں دی جائے، اور صرف ایک طلاق دی جائے۔ اب اس کے تفصیلی احکام مندرجہ ذیل کے سطور میں بیان کئے جارہے ہیں :

        طلاق کی تین قسمیں ہیں :

                ٭  طلاق رجعی            ٭  طلاق بائنہ      ٭  طلاق مغلظہ

        ٭طلاق رجعی وہ طلاق ہے جس میں عدت کے اندر شرعی طریقہ پر رجوع کی گنجائش رہتی ہے ۔

        ٭طلاق بائنہ: وہ طلاق ہے جس میں رجوع کی گنجائش نہیں رہتی ہے بلکہ نکاح ثانی کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی طلاق رجعی ہی عدت گذر جانے سے بائنہ بن جاتی ہے ۔

        ٭ طلاق مغلظہ وہ طلاق ہے کہ آدمی مختلف دو اوقات میں دو طلاق دے اور ہر طلاق کے بعد عدت کے اندر شرعی طریقہ پر رجوع کرلے۔ اس کے بعد جو تیسری طلاق ہوگی یہ طلاق مغلظہ ہے۔ اس میں نہ رجوع کی گنجائش رہتی ہے اور نہ نکاح جدید کی الا یہ حلالہ شرعیہ ہو جائے۔

        حلالہ شرعیہ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کا نکاح خود بخود کسی دوسرے مرد سے ہو جائے۔ یعنی بغیر کسی شرط کے نکاح ہو جائے۔ اور شوہر بلا کسی جبر واکراہ کے اپنی بیوی کو طلاق دیدے، یا بیوی خلع کرلے۔ اس کے بعد عدت گذار کر وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے ساتھ پھر سے شرعی طریقہ پر نکاح کر سکتی ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت : {فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ  الآیۃ} (البقرۃ : 130) کا صحیح معنی ومفہوم یہی ہے ۔

        ایک مجلس میں شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار ہے ایک سے زیادہ طلاقیں دینی شریعت مطہرہ کی خلاف ورزی اور گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی آدمی شریعت کے خلاف ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دیدے تو ایک طلاق تو واقع ہوگی کیونکہ وہ اپنے وقت میں دی گئی۔ باقی دو طلاقیں خلاف وقت وخلاف شرع ہونے کی وجہ سے باطل وکالعدم ہونگی ۔

        جب تین طلاق ایک مجلس میں دی جائے تو وہ قرآن مجید اور حدیث صحیح کی رو سے ایک طلاق ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {الطلاق مرتان فامساک بمعروف أو تسریح باحسان}(سورہ بقرہ : 229)

        یعنی طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر یا تو بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔

        بھلائی کے ساتھ روک لینے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر طلاق دینے کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجعت کرلے۔ اور احسان کے ساتھ چھوڑ دینے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر طلاق دینے کے بعد عدت گزر جانے دے۔ عدت گزر جائے گی تو عورت اپنے شوہر سے مکمل طور پر الگ اور جدا ہو جائے گی ۔ اور اسے اخیتار ہوگا کہ وہ جہاں جی چاہے نکاح کرلے ۔ اب پہلے شوہر سے سارا تعلق ختم ہو گیا۔ اس لئے کوئی رکاوٹ نہیں۔ قرآن مجید کے اس حکم کے دو پہلو قابل غور ہیں :

        ۱ - ایک یہ کہ چونکہ شوہر کو پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ اس بات کا موقعہ دیا گیا ہے کہ چاہے تو رجعت کرے اور چاہے تو عدت گزر جانے دے کہ عورت بائنہ ہو جائے اس لئے ظاہر ہے کہ دونوں رجعی طلاقیں ایک ساتھ نہیں ہونی چاہئیں۔ اور چونکہ دوسری مرتبہ کی طلاق کے بعد بھی شوہر کو یہی اختیار ہے اس لئے اس کے ساتھ تیسری طلاق نہیں ہونی چاہئے۔ یعنی شوہر کو جن تین طلاقوں کا حق حاصل ہے وہ بیک وقت نہیں دی جا سکتیں۔ بلکہ ایسا کرنا شرعا حرام اور سنگین جرم ہے۔ محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :

        أخبرنا رسول اللہ عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا، فقام غضبان، ثم قال أ یلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال یا رسول اللہ! الا اقتلہ؟ (سنن نسائی کتاب الطلاق الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ) ۔

        رسول اللہ  کو ایک آدمی کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھا دے دی ہیں اس پر آپ غضبناک ہو کر کھڑے ہوئے۔ پھر فرمایا: کیا اللہ عز وجل کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟ یہاں تک کہ ایک آدمی نے اٹھ کر کہا اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے قتل کر دوں؟

        ۲ - دوسری بات قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اگر کوئی شخص بیک وقت ایک سے زائد یعنی تین طلاقیں دے دے تو وہ ایک طلاق رجعی ہی ہوگی۔ کیونکہ قرآن نے یہ نہیں کہا ہے کہ : الطلاق طلاقان (طلاق رجعی دو طلاق ہے) بلکہ یہ کہا کہ الطلاق مرتان (طلاق رجعی دو مرتبہ ہے) دو طلاق اور دو مرتبہ طلاق میں جو فرق ہے وہ بہت واضح ہے۔ یعنی اگر یہ کہا جاتا کہ طلاق رجعی دو طلاق ہے تب تو پہلی ہی مرتبہ دو طلاق دینے سے طلاق رجعی کا نصاب پورا ہو جاتا ۔ لیکن جب یہ کہا گیا ہے کہ طلاق رجعی دو مرتبہ ہے تو پہلی مرتبہ طلاق دینے سے یہ نصاب پورا نہیں ہوگا۔ بلفظ دیگر شوہر جب اپنی ازدواجی زندگی میں پہلی مرتبہ طلاق دے تو چاہے ایک طلاق دے ایک سے زیادہ اسے بہر حال رجعت کا حق ہوگا کیونکہ یہ بہر حال پہلی مرتبہ طلاق ہے پھر اسی طرح جب دوسری طلاق دے تو چاہے ایک طلاق دے ایک سے زیادہ اسے رجعت کا حق ہوگا کیونکہ یہ دوسری مرتبہ طلاق ہے۔ اور طلاق دو مرتبہ رجعی ہوتی ہے۔ آیت مذکورہ کے ٹھیک اسی معنی کے مطابق رسول اللہ  کا فیصلہ بھی تھا ۔ مسند احمد جلد اول ص 265 میں ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے :

        طلق رکانۃ بن عبد یزید اخو مطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا، قال فسألہ رسول اللہ کیف طلقتھا؟ قال طلقتھا ثلاثا، قال فقال: فی مجلس واحد؟ قال نعم: قال فانما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت، قال: فرجعھا ۔

        یعنی رکانہ بن عبد یزید مطلبی نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی ۔ پھر اس پر سخت غمگین ہوئے، رسول اللہ  نے ان سے پوچھا  کہ تم نے کس طرح طلاق دی ہے؟ انہوں نے کہا تین طلاق دی ہے ۔ آپ نے فرمایا ٓ: ایک ہی مجلس میں ؟ انہوں نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا یہ تو ایک ہی ہے تم چاہو تو رجعت کرلو ۔ اس کے بعد رکانہ نے رجعت کر لی ۔

        پھر یہی فیصلہ پوری خلافت صدیقی میں اور دو برس تک عہد فاروقی میں بھی قائم رہا۔ بعد میں حضرت عمر فاروق ؓ نے اس کو مصلحت وتعزیر کے طور پر تین نافذ کر دیا ۔ جیسا کہ صحیح مسلم جلد اول ص 477 میں مروی ہے کہ ’’کان الطلاق علی عھد رسول اللہ وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم فأمضاہ علیہم‘‘ یعنی نبی کریم  کے عہد میں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور دو سال تک حضرت عمر کے دور خلاف میں تین طلاق ایک ہی تھی۔ چنانچہ عمر بن الخطاب ؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کیا جس میں ان کے لئے سہولت دی گئی تھی، تو کیوں نہ ہم ان پر اس کو نافذ کردیں پس انہوں نے اس کو نافذ کر دیا ۔‘‘

        اور حضرت عمر فاروق ؓ اپنے جاری کردہ تعزیری قانون پر نادم تھے، جیسا کہ حافظ ابن القیم الجوزیہ ؒ نے اس سلسلہ میں مسند اسماعیلی سے بسند معتبر مندرجہ ذیل روایت نقل کی ہے:  ’’عن یزید بن أبی مالک عن أبیہ قال عمر بن الخطاب ما ندمت علی شیٔ ندامتی علی ثلاث: أن لا أکن حرمت الطلاق و علی أن لا أکون أنکحت الموالی وعلی أن لا أکون قتلت النوائح‘‘ یعنی یزید بن مالک نے کہا کہ حضرت عمر فاروق نے فرمایا: کہ مجھ کوجتنی ندامت تین باتوں پر ہے اتنی کسی پر نہیں۔ ان میں سے ایک: طلاق کو حرام قرار دینے کا معاملہ دوسرا :موالی کے نکاح کا معاملہ، تیسرا: نوحہ خوانی کرنے والوں کے قتل کا معاملہ ۔  (اغاثۃ اللہفان : ص ۱۸۱ بحوالہ مسند اسماعیلی وتنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق متعدد مقامات)

        اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کو ایک وقت کی تین طلاقوں کے سلسلہ میں اپنے جاری کردہ تعزیری حکم پر ندامت تھی اور اس سے انہوںنے رجوع بھی کیا ۔ (اغاثۃ اللہفان: ص 181 – 183)

        بعینہٖ یہی تعزیری قانون انہوں نے حج تمتع کے سلسلہ میں بھی نافذ کیا تھا۔ جیسا کہ معروف ومشہور صحابی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : تمتعنا علی عھد رسول اللہ ونزل القرآن ثم قال رجل : (عمر بن الخطاب) برأیہٖ ما شاء‘‘ (متفق علیہ) یعنی عہد نبوی وصدیقی میں ہم حج تمتع کیا کرتے تھے اور قرآن مجید بھی اس سلسلے میں نازل ہوامگر بعد میں ایک صحابی نے یعنی عمر بن الخطاب ؓ نے اپنی رائے سے حج تمتع پر پابندی لگادی۔ حضرت عثمان ؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں حج تمتع پر پابندی لگا رکھی تھی: ’’عن عبد اللہ بن شقیق قال: کان عثمان ینھیٰ عن المتعۃ ‘‘ (صحیح مسلم: 1 / 104)

        اس کا حاصل یہ ہے کہ دور نبوی و صدیقی میں جس حج تمتع کا عام رواج تھا اس سے حضرت عمر و عثمان اور متعدد روایات کے مطابق حضرت امیر معاویہ اپنے اپنے دور خلافت میں اس سے منع کرتے تھے حتیٰ کہ بعض روایات صحیحہ کے مطابق حج تمتع کرنے پر حضرت عمرؓ لوگوں کو سزائیں بھی دیتے تھے ۔ (سنن سعید بن منصور: 1 / 140 ومتعدد مقامات)

        اس کے باوجود تمام اہل علم بشمول اہل تقلید حج تمتع کو اس لئے جائز کہتے ہیں کہ دور نبوی ودور صدیقی میں اسے جائز سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے اس پر حضرت عمرؓ وحضرت عثمانؓ وحضرت معاویہؓ  کی لگائی ہوئی پابندی کو حجت نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔

        مگر افسوس اور نہایت ہی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ’’برادران اہل تقلید‘‘حضرت ابن عباس والی حدیث طلاق کے معنی ومقتضیٰ پر عمل نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف بلا وجہ لب کشائی وشکوک آفرینی کرتے ہیں ۔ بیحد افسوس کی بات ہے کہ ایک ہی صحابی کی کسی بات کو آپ خلاف سنت ہونے کو اجتہاد ورائے کہہ کر ٹھکرادیتے ہیں اور دوسری کو آپ اپنا خود ساختہ تقلیدی مذہب کا سہارا لے کر قبول کر لیتے ہیں ، یہاں آپ کو وہ چیز نظر نہیں آتی ۔

        یاد رہے کہ اسلام میں اللہ اور اس کے رسول ہی حجت ہیں ۔ اس لئے شریعت اسلامی کا ثابت شدہ مسئلہ یہی ہوا کہ اگر کسی نے ایک مجلس میں تین طلاق دے دی تو اس پر ایک ہی طلاق کا حکم لاگو ہوگا۔ یعنی اسے عدت کے اندر رجعت کا حق حاصل رہے گا: حیض والی عورت کی عدت تین حیض ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {والمطلقات یتربصن بأنفسھن ثلاثۃ قروء} (البقرۃ: 228) حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: {وأولات الاحمال اجلھن أن یضعن حملھن}  (الطلاق: 4)اور جن عورتوں کو کسی وجہ سے حیض نہ آئے ان کی عدت تین ماہ ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {والئی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ أشھر} (الطلاق: 4)اور اگر عدت گزر گئی اور میاں بیوی دونوں راضی ہوں توقرآن مجید کی اس آیت : {واذا طلقتم النساء فبلغن أجلھن فلا تعضلوھن أن ینکحن أزواجھن اذا تراضوا  بیھم بالمعروف} (البقرۃ: ۲۳۲)کی رو سے دونوں  آپس میں نکاح کرکے رہ سکتے ہیں ۔

اب ذرا ذیل کے سطور میں حلالہ کی قباحت وشناعت ملاحظہ فرمائیں :

        سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے دی۔ بعد میں سخت نادم ہوا۔ اور چاہا کہ بیوی کو پھر سے رکھ لے ۔ بیوی کی بھی یہی خواہش تھی ۔ علماء اہلحدیث سے فتوی پوچھا گیا تو انہوں نے فتوی دیا کہ مذکورہ صورت مین صرف ایک طلاق رجعی ہوئی ہے ۔ لہذا شخص مذکور چاہے تو عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے ۔ اور عدت گزر چکی ہو تو پھر سے نکاح کرکے بیوی کو رکھ سکتا ہے۔ لیکن علمائے احناف سے فتوی پوچھا گیا تو انہوں نے فتوی دیا کہ تینوں طلاق پڑ گئی ، اب شخص مذکور نہ عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے نہ عدت کے بعد نکاح کرکے رکھ سکتا ہے ، اور اگر وہ بیوی رکھنا ہی چاہتا ہے تو حلالہ کرانا ہوگا۔ حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے اس غرض سے کر دیا جائے کہ وہ ایک رات یا چند رات عورت کو ساتھ رکھ کر طلاق دے دے ، تاکہ وہ پھر سے پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے، سوال یہ ہے کہ کیا از روئے شریعت اسلامیہ حلالہ کرنا درست ہے ۔ جب کہ یہ بڑی بے حیائی کی صورت معلوم ہوتی ہے۔ (سائل یکے از بندہ خدا)

الجواب وھو الموفق للصواب

        شریعت اسلامیہ کی رو سے حلالہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو ہریرہ، حضرت جابر، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت : ’’لعن رسول اللہ المحلل والمحلل لہ‘‘ یعنی رسول اللہ نے حلالہ کرنے والے پر اور حلالہ کرانے والے پر لعنت کی ہے ۔ (حوالہ مسند احمد 1 / 80، ۸۳ ، ۸۸، 93، 107، ۱۲۱، 133، 150، 158، 450، 451، 448، 482، 483، ابوداود: نکاح ، ترمذی : نکاح ، نسائی: طلاق، ابن ماجہ: نکاح ، مسند دارمی: نکاح، بیہقی: 7 / 208، سندہ صحیح)

        اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’لعن اللہ المحلل والمحلل لہ‘‘ یعنی اللہ تعالی نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت کی ہے ۔ (حوالہ: مسند احمد 2 / ۳۲۳، بیہقی 7 / 208 وسندہ حسن)

        ایک اور روایت حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’الا اخبرکم بالتیس المستعار؟ قالوا بلی یا رسول اللہ! قال ھو المحلل، لعن اللہ المحلل والمحلل لہ‘‘ کیا میں تمہیں ادھار پر لیا ہوا بکرا نہ بتلادوں؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا شخص ہے۔ اللہ حلالہ کرنے والے پر اور حلالہ کرانے والے پر لعنت کرے۔ (حوالہ ابن ماجہ: نکاح ، مستدرک حاکم 2 / 199، بیہقی 7 / 208 وسندہ حسن وصححہ الحاکم ووافقہ الذهبی)

        حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعلان تھا ’’لا اوتی بمحلل ولا محلل لہ الا رجمتھما‘‘ یعنی میرے پاس کسی حلالہ کرنے والے یا حلالہ کرانے والے کو لایا گیا تو میں ان دونوں کو ضرور رجم کردوں گا ۔ (رجم کا معنی ہے پتھر مارمار کر جان لے لینا اور شریعت میں یہ شادی شدہ زناکار کی سزا ہے)  (حوالہ: مصنف ابن شیبہ، بیہقی 7 / 208)

        حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے منع فرمایا ہے (بیہقی 7 / 208) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے اس کا سوال آیا تو فرمایا: ’’کنا نعد ھذا سفاحا علی عھد رسول اللہ ‘‘ یعنی ہم لوگ اس کو رسول اللہ کے زمانے میں زنا اور حرامکاری شمارتے تھے (حوالہ : المعجم الاوسط للطبرانی بحوالہ تلخیص الحبیر، بیہقی 7 / 208، حاکم وقال صحیح علی شرط الشیخین وذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد وقال رجالہ رجال الصحیح)

        اب آئیے! ذرا تابعین کرام وتبع تابعین اور علماء متقدمین ومتأخرین کے موقف کا ملاحظہ کریں:

        ’’وصح عن قتــــادۃ والحسن النخعی قالوا: ان نوی واحد من الناکح والمنکح او المرأۃ التحلیل فلا یصح فان طلقھا فلا تحل للذی طلقھا، ویفرق بینھما علی وجہ التحلیل۔ وروی عن الحسن أنہ سئل عن ذلک فقال: اتق اللہ ولا تکن مسمار نار فی حدود اللہ، وانہ قال کان المسلمون یقولون: ھو التیس المستعار‘‘۔

        حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ ؒ سے بسند صحیح مروی ہے کہ یہ حضرات فرماتے تھے: اگر ناکح ، منکح ، منکوحہ میں سے کسی نے بھی تحلیل کی نیت کی تو نکاح درست نہیں ہوگا اور دونوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی۔ نیز یہ بھی منقول ہے کہ ایک بار حسن بصریؒسے حلالہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: ’’اللہ کی حدود کی آگ کی میخ نہ بن‘‘ ۔ اور فرمایا: ’’ مسلمان حلالہ کرنے والے کو تیس (یعنی جفتی کرانے کا سانڈھ ، بھینسا، بکرا وغیرہ، کہتے تھے ۔ (المحلی لابن حزم: 10 / 181، 182)

        اسی طرح سعید بن جبیر ؒ حلالہ کرنے والے کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ المحلل ملعون‘‘ یعنی حلالہ کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ اور سعید بن المسیب اور امام طاوس اور امام مالک ؒ نکاح حلالہ کو نکاح فاسد قابل فسخ مانتے تھے۔ (المحلی لابن حزم: 1 / 182) امام مالک، امام لیث بن سعد، امام سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل ؒ سب کا یہی مذہب ہے کہ بنیت حلالہ کیا ہوا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اس کا کرنے والا ملعون ہے ۔

امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے شاگردوں کا فیصلہ :

        حلالہ کی نیت سے کیا ہوا نکاح فاسد وکالعدم ہے اور اس سے کوئی بات نہیں بنتی(یعنی بیوی پہلے شوہر کے لئے حلالہ نہیں ہوتی ہے ) ہدایہ : ج۲ کتاب الطلاق،  والمحلی: 10 / 182، 183(

فقہ حنفی اور علماء احناف کے فیصلہ:

        کتب فقہ ہدایہ: 2 / 380، کنز الدقائق بحر الرائق: 4 / 85، شرح وقایہ مع حاشیہ عمدۃ الرعایہ: 2 / 18، ان تمام کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ نکاح جو بشرط طلاق وتحلیل ہو وہ مکروہ تحریمی ہے مطلب یہ ہوا کہ یہ حرام کام ہے۔ امام ابن الہمام حنفی کا فتوی: یہ نکاح، نکاح متعہ ہی ہے اور اس کا کرنے والا کرانے والا ملعون ہے، کیونکہ صحابہ کرام اس کو رسول اللہ کے زمانہ میں زنا شمار کرتے تھے ۔ (فتح القدیر شرح ہدایہ: 4 / 35) ملاعلی قاری اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ: 7 / 443) تحریر فرماتے ہیں کہ حدیث کے اندر ہے کہ دونوں پر (حلالہ کرنے و کرانے والے) اللہ کی لعنت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ ملعون ہیں ۔ حیکم الامت اشرف علی تھانوی کا فتوی: حلالہ کی شرط پر کئے ہوئے نکاح کاکائی اعتبار نہیں ۔ بلکہ اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا بہت بڑا گناہ وحرام ہے اللہ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے (بہشتی زیورحصہ چہارم ص 20) اس سلسلے میں اس کے علاوہ بہت سارے دیگر ائمہ وفقہاء کے اقوال و فتاوے بھی ہیں جنہیں بیان کرنا باعث طوالت ہوگا ۔

        الغرض حلالہ کا نکاح کسی بھی ملت میں مباح نہیں تھا نہ یہ مباح ہے نہ آئندہ مباح ہوگا۔ اور نکاحِ حلالہ نہ کسی صحابی نے کیا اور نہ ہی اس کا فتوی دیا: افسوس ہے اس زمانہ کے نام نہاد خود ساختہ فرقہ، اپنے آپ کو متبع سنت کا لبادہ پہنانے والے، بے غیرت وبے حس، دیوث، وبے شرم مسلمانوں پر کہ یہ حلالہ کا نکاح کرتے اور کراتے ہیں اور اس کا فتوی بھی جاری کرتے ہیں ، اور وہ عورت جو نکاح حلالہ کرتی ہے ، گویا یہ عورت دو آدمیوں سے زنا کراتی ہے ایک حلالہ کرنے والے سے دوسرے پھر اپنے پہلے شوہر سے ۔

        خلاصہ جواب یہ ہے کہ حلالہ حرام ہے اس پر اللہ نے بھی لعنت کی ہے اور اللہ کے رسول نے بھی۔ اور صحابہ کرام بھی اسے زنا قرار دیتے تھے۔ لہذا کوئی بھی شخص حلالہ نہیں کرسکتا۔ اگر اس کاجی بھرے تو اہلحدیث علماء کے فتوی پر عمل کرے۔ ورنہ عورت سے ہمیشہ کے لئے دست بردار ہو جائے۔ اور یہ یاد رکھے کہ ایک مسلمان خواہ حنفی ہو یا کچھ اور وہ جب تک مسلمان ہے اسے رسول اللہ  کے فیصلہ پر عمل کرنا ہے، اور رسول اللہ  کا فیصلہ اتنا اٹل ہے کہ وہ ائمہ ، فقہاء ، علماء اور محدثین کسی کے بھی فتوی سے بدلا نہیں جا سکتا ۔اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ واللہ الموفق وھو اعلم بالصواب۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس