وارث کے لیے وصیت جائز نہیں

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ:

         ہم لوگ چار بھائی اور تین بہنوں پر مشتمل ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں کی اولاد ہیں والد صاحب ایک لڑکے کے ساتھ چودہ سال تک ایک ہی مکان میں ساتھ رہے، تنگی کی بنا ء پر والد صاحب نے بحالت صحت وعافیت بہوش وہواس گھر کے ایک طرف ایک قطعہ زمین دے د یا اور کہا کہ تم بنا لو اپنے خرچ سے میں بھی ساتھ رہوں گا۔ تعمیر کے بعد چھ سال تا وفات ساتھ رہے۔ تقریباً بیس سال تک دیکھ بھال کر تے رہے واضح ہو کہ انہوں نے ایک وصیت ایک بہن کے سامنے کیا تھا کہ یہ مکان ان کا ہے اس میںکوئی نہیں لے گا باقی جو مکان ہے اس میں سب لیں گے۔ یہ بات بھائی کے سامنے بہن سے کہہ رہے تھے ، تو کیا والد صاحب کی یہ وصیت والی بات صحیح ہے اور کیا یہ مذکورہ وصیت کی ہوئی ایک قطعہ زمین کا مالک شرعا ہوا یا نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:

        صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ والد صاحب کا ایک بھائی کے حق میں بہن کے سامنے ایک قطعہ زمین کی وصیت کر دینا شرعا جائز ودرست نہیں ہے اس لئے کہ وصیت جسے اسلام نے ایک تہائی مال یا اس سے کم میں نافذ کر نے کو فرض قرارد یا ہے تو اس کا ایک خاص مفہوم ہے جو یہ ہے کہ ’’وصیت صرف ان قرابت داروں کے لئے جو میت کے زیادہ قریب وارث یا ورثاء کی وجہ سے محجوب المیراث ہو رہے ہوں۔ جیسے کسی میت کے بیٹے یا بھائی نیز پوتے اور بھتیجے موجود ہیں تو ایسی صورت میںمیت کے مال متروکہ میں صرف بیٹے اور بھائی حصہ پائیں گے اور پوتے وبھتیجے حصہ سے محروم ہو جائیں گے چونکہ پوتے اور بھتیجے حصہ پانے سے محروم رہے ہیں اس لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ دادا اور چچا ایک تہائی حصہ کے اندر وصیت کر جائیںاگر وصیت نہیں کریں گے تو تارک فرض ہوںگے۔ (فتاوی شیخ الحدیث مبارکپوری 2 / 474) چونکہ شکل مذکور میں ایک بھائی اپنے دیگر بھائیوں اور بہنوں کی طرح اپنے والد کے ترکہ میں حصہ پانے کا مستحق ہے اس لئے والد صاحب کا ایک بھائی کے حق میں وارث ہونے کی وجہ سے وصیت کر نا درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ وصیت نافذ العمل ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ ارشاد فرماتے ہیں ’’إن اللہ قد أعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث‘‘(سنن ابی داود مع عون المعبود 3 / 290، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی 6 / 258 وصححہ الألبانی کما ھو موجود فی صحیح سنن أبی داود 2 / 554) اللہ تعالی نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثاء کے حصے مقرر کر دیئے ہیں)  پس اب کسی بھی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی، اور دوسری حدیث کے اندر فرماتے ہیں: ’’أنظر قرابتک الذین یحتاجون ولایرثون فأولئک فأوص لھم من مالک بالمعروف حقا علی المتقین‘‘ (فتح القدیر از امام شوکانی رحمہ اللہ 1 / 179) تحت تفسیر آیت سورہ بقرہ: 180) یعنی تم اپنے رشتہ داروں کو دیکھوجو محتاج ہیں اور وارث نہیں بنتے ہیں۔ پس تم اپنے مال کا کچھ حصہ منصفانہ طریقے سے انہیں وصیت کردو، اسی طرح مفسرین نے آیت وصیت : { کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْنَ}(سورہ بقرہ: 180) سے یہی استدلال کیا ہے کہ وصیت کا یہ حکم والدین اور دیگر حصہ پانے والے ورثاء کے حق میں منسوخ کردیا گیا ہے لیکن ان قرابت داروں کے حق میں ابھی بھی باقی رکھی گئی ہے جو وارث نہیں ہوتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: جامع البیان از امام ابن جریر طبری 2 / 117، 118، وتفسیر القرآن العظیم 1 / 277)۔

        امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ: ’’وفرض علی کل مسلم أن یوصی لقرابتہ الذین لایرثون ، إما لرق وإما لکفر وإما لأن ھنالک من یحجبھم عن المیراث أو لأنھم لایرثون فیوصی لھم بما طابت بہ نفسہ لاحد في ذلک‘‘۔ (المحلی :از امام ابن حزم رحمہ اللہ 9 / 314) یعنی ہر مسلمان پر ان قرابت داروں کے حق میں وصیت کر نی فرض ہے جو لوگ غلامی ، کفر یا کسی اور وارث کی موجودگی میں یا ورثاء میں شمار نہ ہونے کی وجہ سے وراثت سے محروم رہتے ہیں۔

        شیخ صلاح الدین یوسف مذکورہ آیت وصیت کی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’پس اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے جو وارث نہ ہوں یا راہ خیر میں خرچ کر نے کے لئے کی جاسکتی ہے (دیکھئے: قرآن مجید مع اردو ترجمہ وتفسیر ص: 27)

        نیز شیخ عطاء الرحمن مدنی /حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ: سورہ بقرہ کی (180) ویں آیت میں ازروئے فرض وتعصیب وراثت سے محروم ہونے والے قرابت داروں کے لئے مناسب مقدار میں وصیت کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ (تیسیر الفرائض : از شیخ عطاء الرحمن صاحب مدنی ص: 8)

        اس تفصیل کے بعدیہ واضح ہو کہ آپ کے والد صاحب کی آپ کے بھائی کے حق میں ایک قطعہ زمین کی وصیت صحیح نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس زمین کا شرعا مالک ہوا اس لئے کہ بھائی دیگر ورثاء کی طرح ایک وارث ہے جو کہ مال متروکہ میں حصہ پانے کا مستحق ہے اور ایسے وارث کے لئے شریعت میں وصیت جائزودرست نہیں ہے۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)

بنارس