علاقائی زبان میں خطبۂ جمعہ کا شرعی حکم

 

        ضروری مسئلہ یہ ہے کہ میری عمر 45 سال ہے اور اب تک میں خطیبوں کو منبر پر خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے دیکھا کہ دونوں خطبے یعنی عربی اور اردو (علاقائی زبان ) میں دیتے تھے، مگر تقریباً ایک سال ہو رہا  ہے ایک مختلف طریقہ سے خطبہ جمعہ سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یعنی پہلے منبر کے بازو کھڑا رہ کر اردو میں خطبہ کہتے اور بعد میں صرف عربی خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر دیتے ہیں۔ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں اور اہل حدیث ودیگر یعنی حنفی طریقوں کے حوالے سے جواب دیں کیوں کہ ہمارے جماعتی بھائی مطمئن نہیں ہیں۔ تذبذب میں ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، معلومات کی کمی کی وجہ سے غیر مطمئن ہیں لہذا جلد جواب لکھیں۔ فقط ۔

الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:

        اولاً: آپ نے بچپن سے لے کر اب تک جو خطبۂ جمعہ سنا یعنی منبر پر اردو وعربی میں۔ وہی طریقہ صحیح ہے خطبۂ جمعہ سے قبل منبر کے بازو میں کھڑے ہو کر اپنی زبان میں تقریر کرنا پھر منبر پر خطبۂ جمعہ دینا یہ بعض لوگوں کا ایجاد کیا ہوا ایک طریقہ ہے، جو کہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے بلکہ اس سے خطبہ کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ: ’’عن جابر بن سمرۃ قال کانت للنبي خطبتان یجلس بینھما یقرأ فیھا القرآن ویذکر الناس‘‘ (رواہ مسلم، الجمعۃ باب ذکر الخطبتین قبل الصلوٰۃ و ما فیھا من الجلسۃ، برقم: (1995)یعنی حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ آنحضور  جمعہ کے دن دو خطبے دیا کر تے تھے ان دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھتے تھے اور آپ خطبہ میں قرآن مجید پڑھتے تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے، مسلم شریف کی مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن وعظ وتذکیر کامقام اور محل خطبہ ہے اس لئے اس سے پہلے وعظ و نصیحت وتقریر کرنا خطبہ کو بے اثر بنانا ہے اور اس کو اس کے مقصد سے ہٹا کر دوسرے مقصد میں استعمال کر نا ہے، پس جو طریقہ آپ کے یہاں رائج ہو رہا ہے وہ ایک بدعت ہے اس سے احتراز کر نا ضروری وواجب ہے تاکہ اس حدیث کے وعید میں داخل نہ ہوں’’ من أحدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھورد‘‘ (البخاری الصلح، باب إذا الصطلحوا علی صلح جور ما لصلح مردود، برقم: 2697، ومسلم: الاقضیۃ باب نقض الأحکام الباطلۃ ورد محدثات الأمور، برقم: 4493) یعنی دین میںجس نے کوئی نئی بات ایجاد کی جو دین میں نہ تھی وہ مردود و باطل ہے، اور مسلم شریف کی حدیث میںہے کہ : ’’من عمل عملا لیس عیہ امرنا فھورد‘‘ معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو خطبۂ جمعہ سے قبل اپنی اپنی زبان میں لوگوں سے خطاب کر تے ہیں ناجائز ہے۔

        ثانیاً: وہ جو خطبۂ جمعہ سے قبل اردو زبان میں تقریرکرتے ہیں جس کا مشاہدہ آپ لوگ چند دنوں سے کر رہے ہیں اس کا ایک پس منظر ہے اور وہ باطل ہے وہ یہ کہ ان کے یہاں خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ دوسری زبان میں دینا اور وعظ ونصیحت کرنا جائز نہیں ہے اس لئے وہ لوگ خطبۂ جمعہ سے قبل ہی اپنی زبان میں تھوڑی دیر تقریر کر تے ہیں۔ لیکن یہ بات بالکل بے بنیاد وباطل ہے بلکہ صحیح ودرست بات یہ ہے کہ ہر آدمی(خطیب) اپنی زبان میں خطبہ جمعہ دے سکتے ہیں کیونکہ حدیث کے لفظ’’یذکر الناس‘‘ ہی سے ثابت ہے کہ خطبہ جمعہ سامعین کی زبان میں ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ خطبہ دوسری زبان میں ہو اور سامعین کوئی دوسری زبان بولتے اور جانتے ہوں تو وعظ ونصیحت اور تذکیر کا کوئی فائدہ نہیں ہے قرآن مجید میں ہے :{وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ فَیُضِلُّ اللّہُ مَن یَشَاء ُ وَیَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ}(سورہ ابراہیم: 4) آیت کریمہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ رُسل علیہم السلام اپنی زبان میں لوگوں کو سمجھاتے اور وعظ ونصیحت کر تے تھے، جیسا کہ سورہ انعام میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :{وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ إِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ} (سورہ الانعام: 48) اوپرکی آیت سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ سمجھانا، وعظ ونصیحت کر نا ، تذکیر ،تبشیر وتنذیر اسی زبان میں ہو،جس کو سامعین سمجھ سکیں ، اس لئے اللہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہر قوم کا پیغمبر اسی قوم کی زبان میں بھیجا گیا تاکہ ان کو ڈرا سکے اور سمجھا سکے۔ اس کے بغیر وعظ ونصیحت کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب ہر پیغمبر نے اپنی اپنی زبان میں وعظ وتذکیر کی تو مختلف زبانوں میں تذکیر ہوئی اور خطبہ کا مقصد بھی تذکیر ہی ہے اس لئے اسے بھی مختلف  زبانوں میں ہونا چاہئے، یعنی جہاں جیسے سامعین ہوں وہاں انہیں کی زبان میں خطبہ دینا چاہئے، پس جہاں اردو سمجھنے والے سامعین ہوں وہاں اردو زبان میں خطبہ دیناچاہئے، آپ نے اپنے یہاں کے خطبہ جمعہ کا جو طریقہ تحریر فرمایا ہے وہ غلط ہے جیسا کہ حدیث کے لفظ’’یذکر الناس‘‘ سے ثابت ہے اس لئے جو طریقہ ایک سال سے ایجاد ہو گیا ہے وہ بدعت ہے قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

        لہذا آپ لوگوں کو چاہئے کہ سنت کے مطابق خطبہ جمعہ دیں اور بدعات وخرافات سے بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی مدد فرمائے، آمین۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)

بنارس