جامعہ سلفیہ کا ابتدائی نام الجامعۃ المرکزیۃ تھا جس کو اردومیں مرکزی دار العلوم کہتے ہیں ، ہندوستان میں مختلف جماعتوں کے مختلف ادارے پائے جاتے ہیں، جو اپنے اپنے مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں، الجامعۃ المرکزیۃ کے نام سے یہ واضح نہیں ہوتا تھا کہ اس ادارے کا کس مکتب فکر سے تعلق ہے، اس لئے اس کے بانیان نے اس کا نام بدل کر ایسا رکھا جس کے مفہوم سے اس کے مقصد کی طرف نشاندہی ہو۔
سلف کا لغوی معنی ہوتا ہے ’’جو گزر چکا ہے‘‘ ، اور سلفیہ کا مطلب ہوتا ہے سلفی مکتب فکر کے ماننے والے ، یہ امت محمدیہ کا ایک خاص گروہ ہے جو اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو اس کی اصل اور بنیاد سے لیاجائے اور جو دین محمد ﷺ نے انسانیت کے لئے چھوڑا ہے اس کو حقیقی شکل میں پیش کرکے عوام کو اس سے جوڑا جائے۔ سلفیت کے ماننے والے اسلام کے بنیادی اصول قرآن وحدیث سے اُس طریقہ پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس طریقہ اور منہج پر ان کے سلف یعنی صحابہ کرام اور ان کے بعد قرون اولی کے علمائ، محدثین اور فقہاء عظام نے امت کے سامنے اسلام کو پیش کیا ہے، یہ معلومات اور مواد بہت سی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے، اور ان کے لکھنے والے مختلف براعظم اور سلطنتوں میں پھیلے ہوئے تھے، جو اسلام کی وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں بس چکے تھے، اس کی تحقیق کے لئے وسیع مطالعہ اور ریسرچ کی ضرورت ہے، کسی خاص امام کی تابعداری کرکے اسلام کی مکمل تعلیمات کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ، اسی لئے سلفیت کے ماننے والے اجتہاد کے قائل ہیں ، اور کسی خاص امام اور عالم کی تقلید کو اسلام کی روح اور اس کی تعلیمات کے منافی مانتے ہیں ، اس لئے اس گروہ کو فرقہ کہنا غلط ہے، فرقہ کسی سے نسبت کی بنیاد پر موسوم ہوتا ہے، جیسے حنفی: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ماننے والے ، شافعی: امام شافعی رحمہ اللہ کے ماننے والے، مالکی: امام مالک رحمہ اللہ کے ماننے والے، حنبلی: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ماننے والے۔
کچھ لوگ سلفیت کو وہابیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور امام محمد بن عبد الوہاب نجدی سے اس کی نسبت کرتے ہیں جو سراسر غلط فہمی اور تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اگرچہ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ بھی تقریبا یہی نظریہ واعتقاد رکھتے تھے جو سلفی کا نظریہ ہے، مگر کوئی سلفی نہ تو محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا مقلد ہے اور نہ ہی ان کو اپنا امام تصور کرتاہے، سلفی کا عقیدہ ہے کہ اسلام وہی صحیح ہے جس کو اللہ کے رسول محمد ﷺ صحابہ کرام کے بیچ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے، یہ دین مکمل تھا، اور اس کے ماننے والوں نے اس دین کی برتری کو دنیا کے سامنے ثابت کردیا تھا، دیکھتے دیکھتے دنیا کی آدھی آبادی تک یہ دین اپنے پورے آب وتاب اور امن وسلامتی کے ساتھ پھیلتا گیا ، جہاں پہنچا وہاں شانتی پہنچی، انصاف اور بھائی چارگی پہنچی ، عزت وناموس کی حفاظت ہوئی، ظالم حکمراں کے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے وہاں کے باشندوں نے اسلام کے ماننے والوں کو اپنے یہاں دعوت دی، ان ایام میں کسی امام کی تقلید رائج نہ ہوئی تھی۔
دنیا کے حالات بگڑے تو اسلام کے ماننے والے بھی بگڑے ، ان کا نظریہ بھی بگڑا اور سوچ و فکر بھی بدلی، حکمرانوں نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے علماء کو استعمال کیا، اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا، تقلید کو ضروری قرار دے کر ایک خاص طرح کے دین کی اشاعت ہوئی، نتیجہ کیا ہوا، کوئی حنفی بنا تو کوئی شافعی، کسی نے امام مالک کو اپنا امام مانا تو کسی نے امام احمد بن حنبل کی پیروی کو بہتر سمجھا۔ حالانکہ اسلام ایک تھا مگر اس کے قبلہ اور حرم پاک میں چار مصلے لگائے گئے تاکہ جھگڑا نہ ہو، چاروں فرقہ والے الگ الگ طریقہ سے نماز پڑھتے ، ہر کوئی اپنے کوحق اور دوسرے کو غلط بتاتا، کسی انسان کے ذہن میں اس تعلق سے کوئی سوال اٹھتا تو یہ کہہ کر بیٹھا دیا جاتا کہ ہمارے امام صاحب کا یہ فتوی ہے پس اسی کو دیکھئے، اپنے اپنے امام کی برتری دکھانے کے لئے جھوٹے اور من گھڑت فضائل پیش کئے گئے تاکہ کوئی اپنے فرقہ کو نہ چھوڑے۔
سلفی قبر پرستی کو شرک سمجھتے ہیں جو سب سے بڑا گناہ ہے، انسان اللہ کا بندہ اور اس کی مخلوق ہے ، اس کو جو بھی مانگنا ہے اپنے خالق سے مانگے یہی اسلام کی تعلیم ہے، اللہ کے رسول محمد ﷺ نے پکی قبر بنانے سے منع کیا ہے، اور کسی طرح کا عرس اسلام میں نہیں ہے۔ محرم میں ماتم وتعزیہ داری، اللہ کے رسول کی میلاد اور بہت سی رسمیں جو آج مسلمانوں میں رائج ہیں قرون اولی میں نہیں تھیں، یہ اسلامی نہیں ہوسکتیں، اس لئے سلفی ان کو نہیں مانتے۔
سلفی کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ قرآن اور حدیث کو اصل اول مانتے ہیں، اور اسلامی کتابوں میں پہلے بھی ایسے لوگوں کواہل حدیث کے لفظ سے یاد کیا گیاہے۔
سلفی اجتہاد کے قائل ہیں اور روز آمدہ مسائل میں کتاب وسنت کی روشنی میں غور وفکر کرکے فیصلہ کرتے ہیں، ہم تنگ نظری کے قائل نہیں ، مسائل میں وسعت ہے ، ہٹ دھرمی سے بہتر ہے کہ صحیح بات مان لی جائے، یہی نجات کا راستہ ہے۔
ہم تمام ائمہ کی عزت کرتے ہیں اور ان کو امام مانتے ہیں، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام اور انسانیت کی خدمت کی ہے، ان کا مقام بہت بلند ہے، ان کی خدمات عظیم ہیں، مگر علم ومعرفت کسی ایک امام میں محصور نہیں اور نہ کوئی انسان اس کا دعوی کر سکتا ہے، اس لئے حق کی تلاش میں جستجو کرنی چاہئے اور جوحق ثابت ہو اس کو تسلیم کرنا چاہئے ، چاہے وہ کسی امام کے قول کے موافق ہو یا مخالف، حق اللہ اور اس کے رسول کے پاس ہے، یہی ہمارا نظریہ، یہی ہمارا اصول اور یہی ہماری دعوت ہے۔
ہم اصول پڑھاتے ہیں، راستہ بتاتے ہیں، علم سکھاتے ہیں ، ماننا یا نہ ماننا ہر انسان کا اپنا فیصلہ اور اپنا حق ہے۔ہماری دعا ہے اللہ تعالی ہم کو حق سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے کی توفیق بخشے ۔
واللہ ولي التوفیق، وصلی اللہ علی نبیہ محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔