Posted by adminPosted on هفته, ستمبر 3rd, 2011
1906 ء میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی تاسیس کے وقت سے ہی ضروریات زمانہ کے لحاظ سے ایک ہمہ گیر مرکزی جامعہ کے قیام کی تجویز تھی ، علمی اور صحافتی حلقوں میں بھی اس کے لئے برابر آواز اٹھتی رہی، 1947 ء میں جب ہندوستان انگریزی سامراج سے آزاد ہوا تو جماعت اہل حدیث ایسی جدید صورت حال سے دوچار ہوئی جس نے اس احساس کو شدید کر دیا، اور الحمد للہ جماعت کے نوگڑھ کے اندر منعقد ہونے والے عظیم تاریخی اجلاس نے جامعہ کی تاسیس کی آخری قرارداد پاس کر دی ۔
اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
اسلامی دعوت کی نشر واشاعت کی شدید ضرورت۔
ہم عصر علمی تحریکوں میں حصہ داری ۔
صحیح عقیدہ پر مضبوط گرفت ۔
دین حنیف کے چہرے کو داغ دار بنانے والی بدعتوں اور رسموں کا قلع قمع ۔
اسلامی عربی جامعات کے ساتھ فکری وثقافتی تعلقات استوار کرنے کا اہتمام ۔
جدید علمی تحقیقی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش ۔
یہی وہ اسباب ہیں جنہوں نے جمعیت اہل حدیث کے علماء کو اس جامعہ کی تاسیس پر ابھارا اور جامعہ رحمانیہ کی کمیٹی کے سامنے ایک جامعہ کی تاسیس اور مستقبل کے لائحہ عمل کی تجویز پیش کی ۔
اس عظیم رفاہی اور علمی منصوبے میں بنارس کے محلہ مدن پورہ کے سرکردہ حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انہوں نے جامعہ کے قیام کے لئے ایک لاکھ مربع فٹ زمین وقف کی، ہندوستان کے تمام علاقوں کے مخلصین نے بھی اس منصوبے میں حسب توفیق حصہ لیا ۔
11 / رجب 1383 هـ مطابق 29 / نومبر 1963 ء جمعہ کے دن جامعہ کا تاسیسی جلسہ منعقد ہوا جس میں جلیل القدر علماء اور اہم شخصیتیں حاضر ہوئیں، شاہ سعود بن عبد العزیز رحمہما اللہ کے حکم سے مملکت سعودی عرب کے ہندوستانی سفیر عزت مآب یوسف بن عبد اللہ الفوزان رحمہ اللہ جامعہ کی بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لائے ، پھر بحسب امکان تعمیر کا کام شروع ہوگیا اور تین سال تک چلتا رہا، اس دوران میں تعلیم کے آغاز کے لئے بعض ضروری درسگاہوں کی تعمیر مکمل ہوگئی ۔
No Comments to “تاسیس جامعہ کے اسباب”