متوفیٰ عنہا زوجہا اپنے شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارے گی

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:

        ہمارے لڑکے عبدالقیوم کا چھت سے گرنے کے بعد انتقال ہو گیا اور اسے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے اور لڑکی کی ماں (عبدالقیوم کی ساس) چاہتی ہے کہ اس کی لڑکی میکے میںآکر عدت گذارے جبکہ ہمارے گھر میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہے تو کیا ماں کی چاہت کے مطابق لڑکی کا میکے میںعدت گذارنا صحیح ہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔

الجواب بعون اللہ الوھاب ومنہ الصدق والصواب:

        جس عورت کا شوہر وفات پاجائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چار مہینے دس دن عدت گذارے اور سوگ منائے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرا}( البقرۃ: 234) او رنبی کریم کا فرمان ہے: ’’لا یحل لامرأۃ مسلمۃ تومن باللہ والیوم الآخر لا تحد امرأۃ علی میت فوق ثلاث إلا علی زوجھا أربعۃ اشھر وعشرا‘‘ (البخاری: الطلاق، باب تحد المتوفی عنھا أربعہ أشھرو عشرا، برقم: 5339) یہ اوراس طرح کی آیت وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ متوفی عنہا زوجہا عورت پر چار ماہ دس دن عدت گذارنا ضروری وواجب ہے۔ اب عدت کہاں گذارے اس سلسلہ میں اللہ کے رسول کا فرمان  ہے کہ: ’’ان الفریعۃ بنت مالک قالت: خرج زوجی فی طلب أعلاج لہ فادرکھم بطرف القدوم فتقلوہ فجاء نعی زوجی و أنا فی دار من دورالأنصار شاسعۃ عن دار أھلی فأتیت النبی فقلت یا رسول اللہ ! أنہ جاء نعی زوجی و أنا فی دار شاسعۃ عن دار أھلی ودار إخوتی ولم یدع مالا ینفق علی ولا مالا ورثتہ ولا دارا یملکھا فإن رأیت أن تأذن لی فألحق بدار أھلی ودار إخوتی فإنہ أحب إلی و أجمع لی فی بعض أمری قال: فافعلی إن شئت‘‘ قالت فخرجت قریرۃ عینی لما قضی اللہ لی علی لسان رسول اللہ حتی إذا کنت فی المسجد أو فی بعض الحجرۃ دعانی فقال ’’کیف زعمت‘‘ قالت فقصصت علیہ فقال ’’امکثی فی بیتک الذی جاء فیہ نعی زوجک حتی یبلغ الکتاب اجلہ قالت فاعتددت فیہ أربعۃ أشھروعشرا‘‘۔ (رواہ ابن ماجۃ فی الطلاق باب این تعتد المتوفی عنھا زوجھا، برقم: 2031، وصححہ الألبانی) اس روایت کا اصل نسائی اور ترمذی کے اندر بھی ہے۔

         اس روایت کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے متوفی عنہا زوجہا عورت کو وہیں عدت گزارنے کا حکم دیا ہے جہاں اس کو شوہرکی موت کی خبر ملے، یعنی دوسری جگہ منتقل ہونا جائز نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بیوہ عورتوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنے متوفی شوہر کے گھر میں ہی عدت گذاریں لیکن اس کو اگر جان یا آبروریزی وغیرہ کا خطرہ ہو اور کوئی اس کا محافظ بھی نہ ہو تو اس طرح کی عورت کے لئے جائز ہے کہ اپنے شوہر پر عدت گذارنے کے لئے اپنے ولی کے گھر یا اپنے لئے کسی دوسری پر امن جگہ منتقل ہو جائے، لیکن اگر دست درازی اور ظلم وزیادتی سے محفوظ ہو اور محض اپنے گھر والوں سے قریب رہنا چاہتی ہے تو پھر اس کا منتقل ہونا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس پر واجب ہے کہ اپنی عدت سوگ پوری ہونے تک اپنی جگہ قیام پذیر رہے بعد ازاں اپنے محرم کے ساتھ جہاں جانا چاہتی ہے جائے۔

        صورت مسئولہ میں متوفی شوہر کے گھر عدت گذار نے میں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے جیسا کہ استفتاء کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے  اس لئے مذکورہ عورت کا میکے میں منتقل ہوکر عدت سوگ گزارنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اپنے متوفی شوہر ہی کے گھر عدت گزارنا ضروری ہے۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)

بنارس