قربانی کے جانور کے لیے دانتا ہونا شرط ہے

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میںکہ:

        اب تک جماعت اہل حدیث کا عمل در آمد اس پر رہا ہے کہ ادنت جانور کی قربانی غلط اور ناجائز ہے مگر اب ایک اہل حدیث مولوی نے (جن کی علاقہ میں بڑی شہرت ہے ) فتویٰ دینا شروع کر دیا ہے کہ سال بھر یا سال بھر سے زائد کا خصی جو اپنے گھر کا ہو اگر بلا دانتا بھی ہو تو بلا ریب قربانی کیا جا سکتا ہے۔ اور ثبوت میں فتاویٰ نذیریہ پیش کر تے ہیں اور مرعوب کر نے کے لئے جناب میاں صاحب کا نام لیتے ہیں کہ یہ علماء اہل حدیث کے استاذ ہیں اور انہوں نے جب یہ فتویٰ دے رکھا ہے تو پھر جائز ہونے میں کلام کیا ہوسکتا ہے اور عوام اپنی سہولت وآسانی کے پیش نظر ادنت ہی کی قربانی کر نے لگتے ہیں’’ قربانی کا جانور دانت والا ہونا چاہئے یعنی اس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر دوسرے نکلے ہوں‘‘ جب یہ اشتہار ان کے سامنے پیش کیا گیا تو کہنے لگے کہ اشتہار میں تو ایسا ہی لکھا جائے گا، لیکن مسئلہ لوگوں کو یوں بتلایا جا ئے گا۔ لہذا آپ سے گزارش ہے کہ شرعاً جو حکم ہو تحریر کریں۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:

        مسلم شریف کی روایت ہے کہ: ’’لا تذبحوا إلا مسنۃ إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن‘‘ (مسلم: الأضاحی، باب سن الأضحیۃ: 5082) اس حدیث میں لفظ مسنہ مذکور ہے اس کی تفسیر اہل لغت، اہل فقہ اور اہل تفسیر نے جو کی ہے ان میں سے چند لوگوں کے اقوال ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں تاکہ مسنہ کے معنی کی تحقیق ہو جائے۔

        نسائی شریف کے حاشیہ میں علامہ سندھی لکھتے ہیں: ’’قولہ مسن بضم المیم وکسر السین وبالنون المشددۃ اسم فاعل من اسنت إذا طلع سنھا لا من أسن الرجل إذا کبر‘‘۔ (سنن النسائی مع حاشیۃ السندی: 7 / 349)

        رد المحتار (2 / 24) میں علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں: ’’قولہ مسن بضم المیم وکسر السین ماخوذ من الاسنان وھو طلوع السن فی ھذہ السنۃ لا الکبر‘‘۔

        نیز (2 / 31) میںرقمطراز ہیں: ’’سمیت بذلک لأن عمرھا یعرف بالسن واحدۃ الاسنان بخلاف الآدمی‘‘۔

        قاموس مع الشرح (9 / 243) میں ہے: ’’یقال اسن البعیر إذا نبت سنہ الذی یصیر بہ مسنا من الدواب‘‘۔

        لسان العرب (71 / 84) میں ہے کہ: ’’والبقرۃ والشاۃ یقع علیھما اسم المسن إذا اثنیا فإذا سقطت ثنیتھما بعد طلوعھا فقد اسنت ولیس فی معنی أسنانھا کبرھا کالرجل ولکن معناہ طلوع ثنیتھا‘‘۔ جزری نے نہایہ (2 / 118) میں لکھا ہے: ’’قال الأزھری:البقرۃ والشاۃ یقع علیھما اسم المسنۃ إذا اثنیا ویثنیان فی السنۃ الثالثۃ ولیس معنی اسنانھا کبرھا کالرجل ولکن معناہ طلوع سنھا فی السنہ الثالثۃ۔‘‘

        مصباح (1 / 140) میں ہے: ’’أسَنَّ الإنسان وغیرہ اسنانا إذا کبر فھو مسن والجمع مسان قال الأزھری: لیس معنی اسنان الإبل والشاۃ کبرھا کالرجل ولکن معناہ طلوع الثنیۃ‘‘ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (41 / 10) میں لکھا ہے کہ:’’حکی ابن التین عن الداؤدی ان المسنۃ التی سقطت اسنانھا للبدل وقال أھل اللغۃ: المسن الثنی الذي یلقي سنہ‘‘۔

        مسنہ کی تحقیق میں اہل علم کی اس طرح کی پچاسوں شہادتیں ابھی اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن چونکہ سب کا ماحصل اور خلاصہ ایک ہی ہے اس لئے انہیں پرا کتفا کیا جا تا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کے مطابق قربانی کر نے کیلئے دانتا ہوا جانور ہونا ضروری ہے، فتاویٰ نذیریہ میں کہیں کہیں سائلین کی خواہش کے مطابق ان کا جواب انہیں کے مذہب کے رو سے دیا گیا ہے لیکن یہ اصول اپنی جگہ مسلم ہے کہ جو بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو اسے تسلیم کر لینا چاہئے۔ جناب میاں علیہ الرحمۃ نے یہی لکھا ہے۔

        لفظ ’’مسنہ‘‘ سے کچھ لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے کیونکہ اسکے معنی ایک سال بھی آتے ہیں۔ مگر جانور پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ہے بلکہ انسان کے لئے مستعمل ہوتا ہے دوسرا معنی دودھ کے دانت ٹوٹ کر دوسرا دانت نکلنا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حوالجات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں مستقل رسالہ بھی مذکور ہے مولانا عبدالرؤف جھنڈا نگری ؒ نے ’’تحقیق  مُسنہ‘‘ کے نام سے اور دیگر حضرات نے بھی رسالہ لکھا ہے ان تمام کا مطالعہ فائدہ مند ہوگا۔ ان تمام تفصیلات سے معلوم ہوا کہ  قربانی کے جانور کے لئے دانتا ہو نا شرط ہے اس کے بغیر جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی ہاں بھیڑ میں یہ شرط ضروری نہیں ہے جیسا کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے ’’إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضان‘‘۔

 

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس