وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے
کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
اسلام نے جو وصیت کا حکم دیا ہے اس کے لئے بنیادی شرطیں کیا ہیں؟ کیا کوئی شخص کسی وارث کے لئے بھی وصیت کرسکتا ہے یا نہیں؟
کیا کوئی شخص اپنی زندگی میں راہ خیر میں خرچ کے لئے وصیت کر سکتا ہے یا نہیں؟
کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت کریں۔
الجواب بعون اللہ الوھاب ومنہ الصدق والصواب:
اسلام میں وصیت کی دو اہم بنیادی شرطیں حسب ذیل ہیں:
۱- اسلام میں وصیت صرف ثلث مال میںجائز قرار دیا گیا ہے، ثلث مال سے زائد مال میں وصیت کا نفاذ نہیں ہوسکتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول ﷺ سے کہا کہ میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری ایک بیٹی کے سوا کوئی میراث پانے والا نہیں ہے تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر سکتاہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا پھر دو تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ پھر انہوں نے کہا آدھے کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا پھر ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: الثلث والثلث کثیر۔ یعنی ایک تہائی ممکن ہے او ریہ بھی کوئی کم نہیں۔ (البخاری: الجنائز، باب رثاء النبی ﷺ سعد بن خولۃ، برقم: 1295، ومسلم: الوصیۃ، باب الوصیۃ بالثلث، برقم: 4209)
۲- دوسرا یہ کہ کوئی شخص کسی وارث کے لئے وصیت نہیں کر سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’إن اللہ قد أعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث‘‘ (أبوداود: الاجارۃ، باب فی تضمین العاریۃ ، برقم: 3565، والترمذی: الفرائض، باب ما جاء لا وصیۃ لوارث، برقم: 2121، وصححہ الألبانی) یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے پس اب کسی بھی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی ہے۔
ہاں ! اگر کوئی شخص راہ خیر میںخرچ کے لئے وصیت کر نا چاہے تو ثلث مال میںکر سکتا ہے۔
دارالإفتاء
جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)
بنارس