بغیر ٹوپی کے نماز جائز ہے یا نہیں؟

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین، شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

        زید بغیر ٹوپی کے نماز پڑھتا ہے اور اس نے اسے اپنا معمول بنا لیا ہے کبھی بھی ٹوپی لگا کر نماز نہیں پڑھتا جب کبھی اس کو کہا جاتا ہے کہ ٹوپی کا اہتمام کیا کرو تو جواب دیتا ہے کہ میری نماز بغیر ٹوپی کے ہوجاتی ہے اس لئے میں ٹوپی نہیں لگاتا۔

        اب سوال یہ ہے کہ بغیر ٹوپی کے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ اور ٹوپی لگانے کے جواز وعدم جواز کا کیا مسئلہ ہے کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔فقط والسلام

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:

        ۱- بلا شبہہ ٹوپی کے بغیر نماز جائز ودرست ہے کیونکہ ٹوپی پہننا نماز کی شرائط میں سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی واجبی حکم ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا افضل ومستحب ہے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد} (الاعراف: 31) یعنی اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہرحاضری کے وقت زینت اختیار کرو۔

        اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ٹوپی زینت کی چیز ہے نیز آیت کے سبب نزول جو کہ مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے، سے بھی ٹوپی لگا کر نماز پڑھنے کے استحباب کا پتہ چلتا ہے۔ مزید یہ کہ ٹوپی عمامہ کے قائم مقام یا مشابہ ہے اور متعدد حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ عمامہ (پگڑی) پہنا کرتے تھے چنانچہ مسلم شریف، ترمذی، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ میں اس معنی کی حدیثیں موجود ہیں۔ حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ:’’رأیت النبی علی المنبر وعلیہ عمامۃ سوداء قد أرخی طرفھا بین کتفیہ‘‘(مسلم : الحج ، باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام، برقم: 3312) یعنی کہ میں نے نبی کریم کو منبر پر دیکھا اس حال میں کہ آپ پر ایک سیاہ عمامہ تھا جس کے کنارے کو آپ نے دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹکا رکھا تھا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ’’ان رسول اللہ دخل یوم فتح مکۃ وعلیہ عمامۃ سودائ‘‘ (مسلم: الحج، باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام، برقم: 3310) نبی جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر ایک سیاہ رنگ کا عمامہ تھا۔ پہلی حدیث میں نبی کریم کے منبر پر اور دوسری حدیث میں دخول مکہ کے وقت عمامہ استعمال کرنے کا ذکر ہے۔ اور غالب گمان یہ ہے کہ آپ نے نماز بھی عمامہ ہی پہن کر پڑھی ہوگی۔ اگرچہ حدیثوں میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ بہرحال ان کے علاوہ اور بھی متعدد حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم عمامہ پہنا کرتے تھے اور زاد المعاد میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کبھی عمامہ کے ساتھ ٹوپی بھی پہنتے تھے اور کبھی صرف عمامہ اور کبھی صرف ٹوپی پہنتے تھے اور کبھی صرف عمامہ پہنتے تھے چنانچہ وہ لکھتے ہیںکہ ’’کانت لہ عمامۃ تسمی السحاب کساھا علیا وکان یلبسھا ویلبس تحتھا القلنسوۃ وکان یلبس القلنسوۃ بغیر عمامۃ ویلبس العمامۃ بغیر قلنسوۃ‘‘(زاد المعاد 1 / 130) آپ کے پاس ایک عمامہ تھا جس کا نام سحاب تھا اسے آپ نے حضرت علی کو پہنا یا تھا آپ اسے پہنتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے کبھی ٹوپی بغیر عمامہ کے پہنتے تھے اور کبھی عمامہ بغیر ٹوپی کے پہنتے تھے۔

        خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمامہ یا ٹوپی لگا کر نماز پڑھنا افضل ہے لیکن اگر کوئی عمامہ یا ٹوپی لگائے بغیر ہی ننگے سر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز جائز ودرست ہے۔ اس لیے کہ حدیث رسول میں ہے:  ’’لا یصلي أحدکم في الثوب الواحد لیس علی عاتقیہ شيئ‘‘ (البخاری: الصلاۃ، باب إذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ، برقم: 359، ومسلم: الصلاۃ، باب الصلاۃ فی ثوب واحد وصفہ لبسہ ، برقم 16)

        کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے ننگے ہوں۔ ایک روایت کے اندر یہ الفاظ ہیں: ’’ان عمر بن أبي سلمۃ أخبرہ قال: رأیت رسول اللہ یصلي في ثوب واحد مشتملا بہ في بیت أم سلمۃ واضعا طرفیہ علی عاتقیہ‘‘ (البخاری: الصلاۃ، باب الصلاۃ فی الثوب الواحد ملتحفا بہ ، برقم: 356، مسلم: الصلاۃ، باب الصلاۃ فی ثوب واحد وصفہ لبسہ، برقم: 517)

 

        عمربن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو ام سلمہ کے گھر میں ایک ہی کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا، آپ نے اس کی دونوں طرفین اپنے کندھوں پر رکھی ہوئی تھیں۔

        ان دونوں حدیثوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مرد کے لیے دوران نماز سر کا ڈھانپنا ضروری نہیں ہے، وگرنہ آپ کندھوں کے ساتھ سر کا بھی ذکر فرماتے۔ لہذا سر ڈھانپنے کی ترغیب تو دی جائے لیکن اگر کوئی نہیں ڈھانپتا تو اس کو ملامت نہ کیا جائے۔

 

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس