نماز وتر کا طریقہ

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین مسئلہ ذیل کے بارے میں

        ضروری تحریر اینکہ ہمارے علاقہ میں چند مسائل کو لے کر لوگوں میںبہت دنوں سے اختلاف چلا آرہا ہے، علاقہ کے علماء کرام سے اس بارے میں استفتاء کیا گیا تو ان علمائے کرام نے مشورہ دیا کہ اس بارے میں مرکزی ادارہ جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف رجوع کیا جائے۔

        لہذا آپ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ ان مسائل کا حل جلد از جلد قرآن وحدیث کی روشنی میں ارسال فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

        ۱- ہمارے یہاں رمضان المبارک میںوتر کی نماز عموماً حرمین کی طرح فصل کے ساتھ ادا کی جاتی ہے (یعنی دو رکعت پر سلام پھیر کر تیسری رکعت دوسرے سلام کے ذریعہ پڑھتے ہیں) مصلیان میں کچھ احناف بھی ہیں جو جماعت کو چھوڑ کر اپنے مسلک کے مطابق وتر کی نماز تنہا ادا کر تے ہیں تو کیا ان کا جماعت چھوڑ کر تنہا وتر ادا کر نا بہتر ہے یا امام کے ساتھ؟

 

الجواب بعون اللہ الوھاب:

        ۱- ہر وہ انسان جو اپنے آپ کو شریعت مطہرہ اورملت بیضاء کا پابند اور اس کے احکام کے مطابق عمل کر نے کا دعویدار ہو ، اس کو ہر وقت ہرجگہ (خواہ بلاد عرب میں ہو یا کہیں بھی) اور زندگی کی ہرموڑ پر کتاب وسنت ہی کو اپنا نا چاہئے، اور نصوص شرعیہ کے مقابلہ میں اپنے مذہب ومسلک امام وپیر اور بزرگ کی رعایت اور ان کا پاس ولحاظ کئے بغیر کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو نا چاہئے۔

        اس کے بعد واضح ہو کہ بہت ساری احادیث صحیحہ کے مجموعہ سے تین رکعت وتر پڑھنے کی دو صورتیں مستفاد ہوتی ہیں:

        ۱- پہلی صورت : دو رکعت پر قعدہ کر کے سلام پھیر دیا جائے اور دوسرے تحریمہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر قعدہ کے ساتھ سلام پھیر دیا جائے۔

        صحیح البخاری میں: ’’صلاۃ اللیل مثنی مثنی فإذا أردت أن تنصرف فارکع رکعۃ توتر لک ما صلیت‘‘(البخاری: أبواب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، برقم: 993) یعنی رات کی نماز دو دو رکعت پڑھی جائے، پھر جب اس نماز کا سلسلہ ختم کرنا چاہو تو ایک رکعت آخر میں پڑھ لو۔ یہ آخری ایک رکعت تمہاری پڑھی ہوئی تمام سابقہ نمازوں کو وتر بنا دے گی ۔

        ’’صلاۃ اللیل مثنی مثنی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیر دے، دریں صورت جو آدمی تین رکعت وتر پڑھنی چاہے وہ دو رکعت پر سلام پھیر کر پھر تیسری رکعت پڑھے ، یعنی تین رکعت والی نماز وتر دو سلام اور دو قعدہ کے ساتھ پڑھی جائے۔

        ۲- دوسری صورت : ایک سلام اور ایک ہی قعدہ سے تینوں رکعت پڑھے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’عن عائشۃ قالت کان النبی یوتر بثلاث لا یقعد إلا فی آخرھن‘‘ (سنن بیہقی: 3 / 728) یعنی رسول اللہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے تو صرف آخری رکعت میں قعدہ کرتے تھے۔ اس کے پہلے دوسری رکعت میںقعدہ نہیں کرتے تھے تاکہ نماز مغرب سے اس کی مشابہت نہ ہو کیونکہ تین رکعت وتر کو مغرب کی طرح پڑھنے سے خود ہی نبی نے منع کردیا ہے۔ ( دیکھئے: مرعاۃ المفاتیح: 4 / 274)

 

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس