عورت بحیثیت امام صف کے اندر کھڑی ہوگی یا آگے؟
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
۱۔ کیا کوئی عورت مرد کی طرح صف کے آگے کھڑی ہو کر امامت کراسکتی ہے یا نہیں؟
۲۔عیدین کی نماز سے فراغت کے بعد کیا کوئی عورت بذریعہ لائوڈاسپیکر خطبہ دے سکتی ہے یا نہیں؟ جب کہ اس کی تقریر باہر کے سامعین مرد وعورت دونوں سن سکتے ہیں۔
تمام سوالوں کا مدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔ عین کرم ہوگا۔
الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:
۱۔عورت کی امامت اگر عورت ہی کرے تو امام کو صف کے درمیان ہی کھڑی ہونی چاہئے، حافظ ابن حزم ؒ نے ’’المحلیٰ‘‘ میں بہت سے آثار نقل کئے ہیں۔ دیکھئے (4 / 219، 220، 3 / 126، 128) اور حافظ ابن حجرؒ تلخیص الحبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ :’’حدیث عائشۃ أنھا امت نساء فقامت وسطھن‘‘ رواہ عبدالرزاق ومن طریقہ الدارقطنی، والبیہقی من حدیث ابی حازم عن رائطۃ الحنفیۃ عن عائشۃ أنھا امتھن فکانت بینھن فی صلاۃ مکتوبۃ، ورویٰ ابن شیبۃ ثم الحاکم من طریق ابن ابی لیلیٰ عن عطاء عن عائشۃ أنھا کانت تؤم النساء فتقوم معھن فی الصف، وحدیث أم سلمۃ أنھا امتھن فقامت وسطا‘‘. (التلخیص الحبیر 2 / 224، برقم 597 و 598)
یعنی حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھما جب عورتوں کی امامت کرتی تھی تو بیچ صف میں کھڑی ہوتی تھیں ان احادیث کو ذکرکرنے کے بعد مولانا شمس الحق عظیم آبادی ؒ فرماتے ہیں:’’قلت : وقد ظھر من ھذہ الاحادیث أن المرأۃ اذا تؤم النساء تقوم وسطھن معھن ولا تقدمتھن‘‘ (عون المعبود: 1 / 231)
یعنی ان احادیث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جب عورتوں کی امامت عورت کرے تو ان کے ساتھ بیچ صف میں کھڑی ہو اور ان سے آگے نہ کھڑی ہو، یہی بات علامہ ابن قدامہ ؒ اپنی کتاب المغنی میں لکھتے ہیں:
’’اذا ثبت ھذا فانھا اذا صلت بہن قامت فی وسطھن ، لا نعلم فیہ خلافا بین من رای لھا أن تؤمھن- ثم قال- فان صلت بین ایدیھن احتمل أن یصح، لأنہ موقف فی الجملۃ، ولھذا کان موقفا للرجل، واحتمل ان لا یصح، لأنھا خالفت موقفھا، اشبہ مالوخا لف الرجل موقفہ‘‘ (المغنی لابن قدامہ 3 / 37 و 38)
یعنی جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورتوں کی امامت جائز ہے تو اس سلسلہ میں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جب کوئی عورت امام بن کر نماز پڑھائے گی تو ان کے درمیان کھڑی ہوگی، اس میں ائمہ کرام کا کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن اگر آگے بڑھ کر مرد کی طرح امامت کرے گی تو یہ صحیح ہے یا نہیں اس سلسلہ میں دونوں احتمال ہیں۔ صحیح ہے، کیونکہ یہ بھی کسی نہ کسی طرح موقف امامت ہے، اسی لئے مردوں کے لئے بھی یہی جائے امامت ہے، صحیح اور درست نہیں ہے، کیونکہ اس نے اپنی جائے امامت کی مخالفت کی ہے، اور بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی مرد امام درمیان صف میں کھڑے ہو کر امامت کرے۔
بہر حال دلائل و براہین کی روشنی میں یہی بات زیادہ بہتر ہے کہ درمیان صف میں عورت امام کھڑی ہوکر امامت کرے۔
۲۔عورت کو پردہ قرار دیا گیا ہے، اسی لئے جب نماز با جماعت میں عورتیں شریک ہوں اور امام غلطی کرجائے تو تصفیق (تالی بجانے کا) حکم دیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی آواز عورت تو سن سکتی ہے لیکن مرد نہیں سن سکتا، الا یہ کہ کوئی شدید ضرورت ہو۔ پھر اس پہلو پر بھی غور کریں کہ نبی کریم ﷺ نے عید کی نماز پڑھائی اور مردوں کو خطبہ دیا۔ پھر عورتوں کو بھی الگ سے خطبہ دیا۔
اور قرآن مجید کی اس آیت کریمہ پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ:
’’یانساء النبی لستن کأحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض‘‘ (الاحزاب: 32)
یعنی اے نبی ﷺ کی بیویو! تم نرم لہجے سے بات نہ کیا کرو۔ کیونکہ جس کے دل میں بری بیماری ہو وہ برا خیال کرے گا۔
جب اس وقت کا یہ حال تھا جب مسلمانوں کا ایمان مضبوط اور پختہ تھا ، تو پھر اس زمانہ میں کیا کہنا جب ان کا ایمان کمزور ہوچکا ہے، اور وہ دین پر کم ہی کار بند ہیں ۔ لہذا تمام عورتوں پر واجب ہے کہ اجنبی مرد سے بات نہ کریں، اور اگر کسی سخت ضرورت کے تحت کسی اجنبی مرد سے بات کرنا ہی پڑے تو لچکدار ونرم لہجے سے بات نہ کریں۔
اگر شرعی ضرورت ہو تو شرعی پابندیوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے بات کرسکتی ہے، بہت ساری صحابیات نبی کریم ﷺ سے سوالات کرتی تھیں، نیز صحابہ کرامؓ سے بھی اپنی ضرورت کے بارے میں گفتگو کرتی تھیں، اور ان پر کسی کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوا۔
صورت مسئولہ میں ہمارے نزدیک کسی عورت کا لاؤڈ اسپیکر سے تقریر کرنا یا کسی دوسرے پروگرام میں شریک ہو کر لائوڈاسپیکرسے بات کرنا جائز نہیں ہے، شرعی ضرورت کے تحت شرعی پابندیوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے کبھی کبھار بات کرسکتی ہیں۔
دارالإفتاء
جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)
بنارس