مرتد کے ساتھ شادی وغیرہ کا رشتہ قائم کرنا کیسا ہے؟

 

        کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ:

        ۱۔ مرتد کسے کہتے ہیں، اور ان کے احکام کیا ہیں، مرتد کے ساتھ شادی ورشتہ داری و دیگر خاندانی مراسم قائم رکھنا جائز ہے کہ نہیں، اگر نہیں تو کیوں؟

        ۲۔اگر کوئی شخص مرتد سے رشتہ و خاندانی مراسم قائم رکھتا ہے تو ان کے سلسلہ میں کیا حکم شرع ہے۔

        ان دونوں سوالوں کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:

        ۱۔ مرتد وہ شخص ہے جس نے اسلام قبول و اختیار کرنے کے بعدادیان میں سے کوئی دوسرا دین باطل کو اختیار کرلیا ہو، خواہ یہود یت کو اختیار کیا ہو یا عیسائیت یا ہندو مذہب یا کسی بھی مذہب باطل کو ، یا ملحد ہوجائے، شافعی سے حنفی ، مالکی یا اہل حدیث ہونا ارتداد نہیں ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب (المغنی: 12 / 264) میں لکھتے ہیں کہ :’’المرتد ھو الراجع عن دین الاسلام الی الکفر‘‘ یعنی مرتد وہ شخص ہے جو دین اسلام کو چھوڑ کر کفر کو اختیار کرلے، اور الموسوعہ الفقہیہ 22 / 180 میں ارتداد کی تعریف یوں آئی ہے کہ :’’الردۃ کـفر المسلم بقول صریح أو لفظ یقتضیہ أو فعل یتضمنہ‘‘یعنی ارتداد کا معنی کسی مسلم کا کفر اختیار کرنا ہے، خواہ اس کا اظہار صریح کلام کے ذریعہ سے ہو یا ایسے قول اور فعل سے جو کفر کا مقتضی و متضمن ہو، ان دونوں تعریفوں سے مرتد کی تعریف معلوم ہوگئی، علامہ ابن حزم رحمہ اللہ اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ : ’’کل من صح عنہ أنہ کان مسلما متبرئا من کل دین حاش دین الاسلام ثم ثبت عنہ أنہ ارتد عن الاسلام و خرج الی دین کتابی أو غیر کتابی او الی غیر دین‘‘۔ (المحلی لابن حزم: 8 / 188) اس عبارت کا حاصل بھی قریب قریب وہی ہے کہ مرتد وہ شخص ہے جس کے بارے میں صحیح طور پر یہ معلوم ہو کہ وہ مسلمان تھا اسلام کے علاوہ ہر دین و مذہب سے بیزار تھا، پھر یہ ثابت ہو کہ وہ اسلام سے برگشتہ ہوگیا خواہ اس کے بعد کسی آسمانی مذہب کو اختیار کیا ہو یا ملحد ہو گیا ہو۔ یہ تو ہوئی مرتد کی تعریف۔

        ارتداد کے بہت سے احکام ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ چونکہ اس نے اسلام کو چھوڑ کر کفر کو اختیار کیا ہے اس لئے اس سے توبہ کرائی جائے اگر توبہ کر لے یعنی اسلام کو اگر پھر سے اختیار کرلے تو بہتر اور اگر توبہ نہیں کرتا یعنی اسلام کو اختیار نہیں کرتا تو اسے قتل کر دیا جائے گا، یہ تو دنیوی حکم ہے، اور آخرت میں یہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا، یہی کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ومن یرتد د منکم عن دینہ فیمت وھو کافر فاولئک حبطت اعمالھم فی الدنیا والآخرۃ واولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون‘‘ (سورۃ بقرۃ: 270) یعنی تم میں سے جو کوئی اپنے دین یعنی اسلام سے برگشتہ ہو جائے گا اوراسی کفر ہی کی حالت میں مرے گا تو ان کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوجائیں گے، اور یہ لوگ جہنمی ہیں، جہنم کے اندر یہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اور نبی کریم کا ارشاد ہے: ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ (البخاری، الجہاد والسیر، باب لا یعذب بعذ اب اللہ، برقم: 3017) یعنی جو شخص اپنے دین اسلام کو بدل دے اسے قتل کر ڈالو، اور اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع بھی ہے، ابن قدامہ مقدسی ؒ لکھتے ہیں کہ: وجمع اھل العلم عن قتل المرتدین وروی ذلک عن ابی بکر و عثمان و علی ومعاذ وابی موسی وابن عباس و خالد وغیرھم ولم ینکر ذلک فکان اجماعا‘‘ (المغنی لابن قدامہ: 12 / 264) یعنی اہل ارتداد کے قتل کے وجوب پر اہل علم کا اجماع واتفاق ہے اور یہ حضرت ابوبکر، حضرت عثمان ؓ وحضرت علی، اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے مروی ہے، کسی سے بھی انکار ثابت نہیں ہے، لہذا اس بات پر اجماع صحابہ ثابت ہوا، لیکن یہ وجوبا قتل مرتد کی بات اس وقت ہے جب وہ بالغ اور عاقل اور کسی جبر کے بغیر ارتداد کو اختیار کیا ہو۔

        چنانچہ موسوعہ فقہیہ 22 / 180 میں مذکور ہے کہ: ’’لا تقع الـردۃ مــن المسلـم الا إذا تـوفـرت شرائـط البـلوغ اوالعقل اوالاختیار‘‘۔ یعنی جب کسی مسلمان عاقل بالغ اور اپنی رضامندی سے ارتداد کو اختیار کیا ہو تبھی جاکر اسے اجماعی طور پر قتل کرنے کا حکم ہے۔ نیز قتل کا حکم اسلامی حکومت کے اندر حاکم وقت نافذ کرے گا ۔ ہندوستان میں جرائم کی شرعی سزا کا نفاذ ممکن نہیں ہے لہٰذا یہاں کسی مرتد کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔چونکہ وہ اسلام کو چھوڑ کر کفر کو اختیار کیا ہے، اس وجہ سے وہ کافر سے بھی بدتر ہے، اور کافر سے شادی بیاہ کے مراسم رکھنا چونکہ جائز نہیں ہے، اس لئے اس مرتد سے بھی شادی وبیاہ کے مراسم رکھنا جائز نہیں ہے، ہاں اس کے مسلمان بالغ لڑکے او رلڑکیوں کا مسئلہ دیگر ہے، اگر مرتد شادی بھی کرے تو باطل قرار پائے گا، موسوعہ فقہیہ 22 / 198 میں ہے کہ ’’اتفق الفقہا ء علی أن المسلم اذا ارتد ثم تزوج فلا یصح زواجہ لأن لاملۃ لہ فلیس لہ أن یتزوج مسلمۃ ولا کافرۃ ولامرتدۃ‘‘ یعنی فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہوجائے (نعوذ باللہ) پھر وہ شادی کرلے تو اس کی شادی صحیح نہیں ہوگی، اسلئے کہ مرتد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے جائز نہیں کہ کسی مسلمان سے شادی کرلے نہ کسی کافر سے اور نہ کسی مرتدہ سے۔

        ۲۔چونکہ یہ فاسق و کافر سے بھی بدتر ہے اس لئے اس سے رشتہ وخاندانی مراسم قائم رکھنا جائز نہیں ہے۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس