محرم کی شرعی حیثیت اور تعزیہ داری

 

        کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

        ۱۔ ماہ محرم کی شرعی حیثیت کیا ہے، کیا یہ مہینہ دیگر مہینوں سے متبرک ولائق تعظیم ہے؟

        ۲۔ تعزیہ بنانا اور اس کو تعظیم و احترام کے ساتھ دفن کرنا، کیا جائز ہے؟

        قرآن و حدیث کی روشنی میں دونوں سوالوں کے جوابات دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، بہت بہت نوازش ہوگی۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:

        ۱۔ شرعی اعتبار سے ماہ محرم کی بہت ساری خصوصیات ہیں، ایک یہ کہ اس مہینہ کو قرآن مجید نے حرمت والے چارمہینوں میں تخلیق آسمان وزمین کے زمانہ ہی سے داخل کیا ہے، جیسا کہ پارہ دس سورہ توبہ آیت نمبر: 36 میں اور اس کی تفسیر میں موجود ہے، او رماہ محرم نیز حرمت والے مہینوں کو دین قیم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر آیت مذکورہ: 2 / 464 تا 468 اور اس مہینہ کو حدیث میں جو کہ صحیح حدیث ہے ’’شہر اللہ‘‘ (مسلم الصیام باب فضل صوم المحرم برقم 2755) کہا گیا ہے۔جیسا کہ صحیح مسلم و متعدد کتب حدیث میں موجود ہے، سیر وتواریخ کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مہینہ کی دس تاریخ کو سابقہ شرائع میں روزہ رکھنے کو فرض قرار دیا گیا تھا، حتی کہ صحیحین وغیرہما میں مروی ہے کہ ایام جاہلیت میں قریش او رنبوت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے ہمارے رسول بھی اس دن روزہ رکھنے کا التزام رکھتے تھے، اور کچھ ائمہ کرام کا مسلک ہے کہ رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے اس دن یعنی دسویں محرم الحرام کو روزہ رکھنا فرض تھا، جو رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد منسوخ ہوگیا، اور اس دن روزہ رکھنا سنت مؤکدہ یا بعض کے نزدیک سنتِ غیر مؤکدہ ہوگیا، یہ باتیں عام کتب شروح حدیث میں موجود و منقول ہیں۔

        ۲۔ تعزیہ داری و تعزیہ سازی وفات نبوی کے سیکڑو ں سال بعد روافض نے ایجاد کیا، جس کی تقلید بعض سنی کہلانے والے بدعت پرست فرقوں نے بھی کی، او راس میں ان اہل بدعت نے بہت سارے اضافات بھی کر لئے، اور بہت ساری ایسی ایجادات ہوئیں جو صرف بدعت ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر شرک و بت پرستی کے ضمن میں آجاتی ہیں، کیونکہ:

        اولًا… تعزیہ میں روح حسین کے موجود ہونے کا عقیدۃ رکھا جاتا ہے اور انہیں عالم الغیب سمجھا جاتا ہے، تب ہی تو لوگ ان کوقابل تعظیم سمجھتے  اور ان سے مدد مانگتے ہیں، حالانکہ کسی بزرگ کی روح کو حاضروناظر جاننا اور عالم الغیب سمجھنا شرک و کفر ہے۔

        ثانیاً… تعزیہ پرست تعزیہ کے سامنے سرجھکاتے ہیں جو سجدہ ہی کے ذیل میں آتا ہے اور کتنے لوگ تو ایسے ہیں جو کھلم کھلا سجد ہ ہی بجالاتے ہیں، اور غیراللہ کو سجدہ کرنا چاہے وہ تعبدی ہویا تعظیمی شرک صریح ہے، چنانچہ فقہ حنفییہ میں بھی سجدہ لغیر اللہ کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ شمس العلماء سرخسی کہتے ہیں کہ:’’ان کان لغیر اللہ تعالیٰ علی وجہ التعظیم کفر‘‘ غیراللہ کو تعظیمی طور پر (بھی) سجدہ کرنا کفر ہے، اور علامہ قہستانی حنفی فرماتے ہیں کہ:’’یکفر بالسجدۃ مطلقا‘‘ یعنی غیراللہ کو سجدہ کرنے والا مطلقا کافر ہے چاہے عبادتاً ہویا تعظیما‘‘۔ (ردالمحتار: 9 / 468)

        ثالثاً…تعزیہ پرست مرثیہ خوانی و سینہ کوبی کرتے ہیں اورماتم ونوحہ میں کلمات شرکیہ ادا کرتے ہیں، اول تو نوحہ وماتم خود غیر اسلامی فعل ہے، جس سے رسول اللہ نے منع فرمایا ہے، ’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن النوح۔ ابن ماجۃ الجنائز باب فی النھی عن النیاحۃ برقم 1580 وصححہ الالبانی‘‘ پھر ان میں ایسے مرثیے پڑھے جاتے ہیں جن میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے اور زمین و آسمان کے قلا بے ملائے جاتے ہیں اور عبدومعبود کے درمیان فرق کو مٹادیا جاتا ہے تو وہی جاہلانہ شرک ہے، جس کے مٹانے کے لئے ہی تو اسلام آیا تھا۔

        رابعاً…تعزیہ پرست تعزیوں سے اپنی مرادیں اور حاجات طلب کرتے ہیں جو صریحا شرک ہے، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں مظلومین کی صف میں مظلومانہ شہید ہوگئے اور اپنے اہل وعیال کو ظالموں کے پنجے سے نہ بچا سکے تو اب بعد از وفات وہ کسی کے کیا کام آسکتے ہیں۔

        خامساً…تعزیہ پرست حضرت حسین ؓ کی مصنوعی قبربناتے ہیں اور اس کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں۔

        ان سب اور ان کے علاوہ دیگر برائیوں اور خرافات و بدعات کے پیش نظر تمام علماء سلف نے تعزیہ داری کو حرام و ناجائز قرار دیاہے، حتی کہ بدعت پرست فرقہ کے امام احمد رضا خاں بریلوی کو بھی اپنی متعدد کتابوں میں تعزیہ داروں و تعزیہ سازوں پر سخت الفاظ میں تنقید کرنی پڑی۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض وروگردانی کریں اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہئے(دیکھئے عرفان شریعت:جلد۱،صفحہ 15) اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کا رواج روافض کے ذریعہ صرف روافض میں چوتھی صدی ہجری میں عام ہوا بعد میں اس قبیح فعل میں کچھ ایسے لوگ جو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں شریک ہوگئے، اوراس دن یہ لوگ میلہ بھی لگاتے ہیں اور جنگی کھیل و تماشہ بھی دکھلاتے ہیں۔ بہرحال تمام تفصیلات سے معلوم ہو اکہ یہ صرف بدعت ہی نہیں بلکہ شرک بھی ہے، اس قبیح فعل اور اس قسم کی بدعات کا حضرت حسین بن علی یعنی رسول اللہ کے نواسے کے واقعہ کربلاء سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے واقعہ کربلا کے سیکڑوں سال بعد یہ بدعات کے مجموعہ والا تہوار و تماشہ ایجاد کیا گیا ہے۔

        اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان جیسے بدعات و خرافات سے بچائے، آمین۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس