مرتد کی نماز جنازہ اور اس کے ذبیحہ کا مسئلہ

 

        کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

        ۱۔ اگر کوئی مرتد مرجائے تو ان کی نماز جنازہ پڑھنا اور بیمار ہوجائے تو ان کی عیادت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

        ۲۔ مرتد کا ذبیحہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں جب کہ وہ بھی تو اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔

 

الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:

        ۱۔ مرتد و مرتدہ کی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں کیونکہ یہ کافر سے بھی بدتر ہیں، اور کافر کے جنازہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں، تو اس کی جنازہ کی نماز پڑھنا بدرجۂ اولیٰ ناجائز ہے، لیکن جہاں تک عیادت و بیمار پرسی کی بات ہے تو اگر اسلام کی طرف راغب و مائل کرنے کی بات ہے تو اس کے جواز میںکوئی کلام نہیں، اس لئے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم نے ایک غلام کافر کی عیادت اسی غرض ومقصد کے لئے کی تھی(البخاری، کتاب الجنائز برقم: 1356) اس وجہ سے اس مرتد کی بس عیادت جائز ہے، لیکن نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے، چنانچہ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ:’’والصلوۃ علی الکافر والدعاء بالمغفرۃ لہ حرام بنص القرآن والاجماع‘‘(المجموع: 5 / 144).

        یعنی کافر کے جنازہ کی نماز پڑھنا اور اس کے لئے دعاء مغفرت کرنا جائزنہیں بلکہ حرام ہے۔

        ۲۔ مرتد چونکہ کافر سے بھی بدتر ہے اس لئے اس کا ذبیحہ حلال نہیں بلکہ حرام ہے، بعض علماء کرام کے نزدیک کافر کاذبیحہ جب کہ وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے جائز وحلال ہے، لیکن مرتد کے ذبیحہ کی حرمت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے، سب کے نزدیک حرام ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ہی کیوں نہ ذبح کرے، چنانچہ علامہ ابن قدامہ ؒ اپنی کتاب ’’المغنی: 12 / 277 میں تحریر فرماتے ہیں کہ:’’وذبیحۃ المرتد حرام وان کانت ردتہ الی دین اہل الکتاب وھذ اقول مالک والشافعی واصحاب الرایٔ وقال اسحاق ان تدین بدین اہل الکتاب حلت ذبیحتہ‘‘ ۔

        اس عبارت کا خلاصہ یہ ے کہ جمہور علماء کرام کی رائے میں مرتد کا ذبیحہ حرام ہے خواہ یہ مرتد اہل کتاب کا دین ہی کیوں نہ اختیار کرلیا ہو لیکن اسحاق کی رائے یہ ہے کہ اگر اس نے اہل کتاب کا دین اختیار وقبول کیا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال و جائز ہے۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم)

بنارس