جشن
عید میلا د
النبی کا حکم
الحمد
للہ والصلاۃ
والسلام علی
رسول اللہ وعلی
آلہ وصحبہ
ومن اھتدی
بھداہ، أمابعد!
یہ
سوال بار بار
بکثرت دہرایا
جاتا ہے کہ
جشن عید میلاد
النبی کی رنگا
رنگ تقاریب کا
اہتمام کرنے،
اس دوران آپ
صلی اللہ علیہ
وسلم کے لیے
تعظیماً کھڑا
ہونے اور آپ
پر سلام پڑھنے
کا کیا حکم
ہے؟ نیز اس
جشن میں اس کے
علاوہ جو
دوسرے افعال
انجام دیے
جاتے ہیں شریعت
ان کے تعلق سے
کیا کہتی ہے؟
اس
کے جواب میں یہ
کہا جائے گا
کہ رسول صلی
اللہ علیہ
وسلم کی ولادت
کا جشن منانا
جائز نہیں ہے
اور نہ ہی آپ
صلی اللہ علیہ
وسلم کے علاوہ
کسی دوسرے کی
ولادت کا، کیوں
کہ یہ دین میں
نئی ایجاد ہے،
نہ رسول صلی
اللہ علیہ
وسلم نے ایسا
کیا نہ خلفائے
راشدین نے اور
نہ ہی ان کے
علاوہ کسی
صحابی نے اور
نہ ہی قرون
مفضلہ میں
صحابہ کے متبعین
نے، حالانکہ
وہ لوگوں میں
سنت کا سب سے زیادہ
علم رکھتے تھے
اور رسول سے
سب سے زیادہ
محبت کرنے
والے تھے اور
وہ اپنے بعد
والوں سے زیادہ
شریعت کے
پابند تھے۔ نبی
صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد
ہے: ’’علیکم
بسنتی وسنۃ
الخلفاء
الراشدین
المھدیین من
بعدی، تمسکوا
بھا وعضوا علیھا
بالنواجذ، وایاکم
ومحدثات
الأمور فان کل
محدثۃ بدعۃ
وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘
(أبوداود:
السنۃ برقم 4607 والترمذی
برقم 2676 وابن
ماجہ: المقدمۃ
برقم 42 وصححہ
الشیخ
الألبانی) میری
سنت اور میرے
بعد ہدایت یافتہ
خلفائے راشدین
کی سنت کو
لازم پکڑ لو،
اسے مضبوطی سے
تھام لو اور
اسے داڑھوں سے
پکڑ لو اور دین
میں نئی ایجادات
سے بچو، اس لیے
کہ (دین میں) ہر
نئی ایجاد
بدعت ہے اور
ہر بدعت گمراہی
ہے۔
مذکورہ
حدیث میں بدعت
ایجاد کرنے
اور اس پر عمل
کرنے کے سلسلہ
میں سخت تحذیر
موجود ہے اور
اللہ تعالی نے
اپنی واضح
کتاب میں
ارشاد فرمایا:
{وما آتاکم
الرسول فخذوہ
وما نھاکم عنہ
فانتھوا}(الحشر:
7) رسول جوکچھ
تمہیں دیں اس
کو لے لو اور
جس سے منع کر دیں
اس سے رک جاؤ۔
نیز فرمایا:
{فلیحذر الذین
یخالفون عن
أمرہ أن تصیبھم
فتنۃ أو یصیبھم
عذاب ألیم}(النور:
63) جو لوگ رسول کی
حکم عدولی
کرتے ہیں ان
کو ڈرتے رہنا
چاہئے کہ کہیں
ان پر کوئی
آفت نہ آن
پڑے، یا کہیں
وہ دردناک
عذاب سے دوچار
نہ کر دیے جائیں،
اور فرمایا:
{لقد کان لکم فی
رسول اللہ
أسوۃ حسنۃ
لمن کان یرجو
اللہ والیوم
الآخر وذکر
اللہ کثیرا}(الأحزاب:
21) یقینا رسول (کی
زندگی) میں
تمہارے لیے
بہترین نمونہ
ہے، ہر اس شخص
کے لیے جو
اللہ تعالی
اور یوم آخرت
کی توقع رکھتا
ہے اور کثرت
سے اللہ کو یاد
کرتا ہے، اور
فرمان الٰہی
ہے:
{والسابقون
الأولون من
المھاجرین
والأنصار
والذین
اتبعوھم
باحسان رضی
اللہ عنھم
ورضوا عنہ
وأعد لھم
جنات تجری
تحتھا
الأنھار
خالدین فیھا
أبدا، ذلک
الفوز العظیم}(التوبہ:
100) اور جو مہاجرین
وانصار سابق
اور مقدم ہیں
اور جو لوگ
اخلاص کے ساتھ
ان کے پیرو ہیں
اللہ ان سب سے
راضی ہوا اور
وہ سب اس سے
راضی ہوئے
اللہ نے ان کے
لیے ایسا باغ
تیار کر رکھا
ہے جن کے نیچے
نہریں جاری
ہوں گی جن میں یہ
سدا رہیں گے، یہ
بڑی کامیابی
ہے۔ رب ذوالجلال
کا یہ بھی
ارشاد ہے: {الیوم
أکملت لکم دینکم
وأتممت علیکم
نعمتی ورضیت
لکم الاسلام دینا}
(المائدۃ: 3) آج
میںنے تمہارے
لیے تمہارے دین
کو مکمل کر دیا
اور اپنی نعمت
تم پرپو ری کر
دی اورتمہارے
لئے اسلام کودین
مان کر راضی
ہو گیا۔
اس
کے علاوہ بھی
اس معنی
ومفہوم کی بہت
سی آیتیں ہیں۔
اس طرح
کے جشن میلاد
کی بدعت ایجاد
کرنے سے یہ
سمجھ میں آتا
ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے اس
امت کے لیے دین
کی تکمیل نہیںکی۔
یہاں تک کہ یہ
متاخرین آئے
اور اللہ کی
شریعت میں ایسی
نئی چیز ایجاد
کی جس کی
اجازت اللہ نے
نہیں دی، یہ
گمان کرتے ہیں
کہ ان کا یہ
عمل اللہ سے ان
کو قریب کر دے
گا۔ بلاشبہ ان
کا یہ عمل
(بدعت کی ایجاد)
بڑا پر خطر ہے
اور اللہ اور
اس کے رسول پر
اعتراض کرنا
ہے۔ حالانکہ
اللہ نے اپنے
بندوں کے لیے
دین کو مکمل
کر دیا ہے اور
ان پر اپنی
نعمت پوری کر
دی ہے۔
درحقیقت
رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے
واضح پیغام
پہنچا دیا اور
جنت تک لے
جانے والا اور
جہنم سے دور
کرنے والا ہر
دو راستے کے
بارے میں اپنی
امت کو باخبر
کر دیا ہے، جیسا
کہ حضرت
عبداللہ بن
عمرو سے مروی
صحیح حدیث میںہے
کہ رسول نے
فرمایا: ’’انہ
لم یکن نبی
قبلی الا کان
حقا علیہ أن یدل
أمتہ علی خیر
ما یعلمہ لھم
وینذرھم شر ما
یعلمہ لھم‘‘ (صحیح
مسلم: الامارۃ
برقم 4776) یعنی
مجھ سے پہلے
جو بھی نبی آیا
اس پر یہ ضروری
تھا کہ وہ اپنی
امت کو خیر
بتلائے اور
برائی سے
ڈرائے جس کی
اس کو تعلیم دی
گئی تھی۔
اور
یہ بات معلوم
ہے کہ ہمارے
نبی صلی اللہ
علیہ وسلم
خاتم الانبیاء
اور تمام نبیوں
میں افضل ہیں اور
تبلیغ رسالت
اور خیر خواہی
کے اعتبار سے
(بھی) سب سے
کامل ہیں
لہٰذا اگر عید
میلاد النبی
کا جشن منانا
اس دین کا حصہ
ہوتا جس سے
اللہ راضی ہے
تو رسول صلی
اللہ علیہ وسلم
اس کے بارے میں
اپنی امت کو
بتلا دیتے یا
اپنی حیات
مبارکہ میں اس
کو انجام دے
کر دکھاتے یا
کم ازکم آپ
کے صحابہ رضی
اللہ عنہم سے
اس کو کرنے کا
کوئی ثبوت
ملتا۔ جب ان میں
سے کوئی چیز
واقع ہی نہیں
ہوئی تو یہ
معلوم ہوا کہ
اسلام میں اس
طرح کی کوئی چیز
ثابت نہیں
بلکہ یہ ان
بدعات وایجادات
میں سے ہے جن
سے رسول صلی
اللہ علیہ
وسلم نے اپنی
امت کو ڈرایا
ہے جیسا کہ اس
سے پہلے دو حدیثیں
اس سلسلے کی
ابھی گزریں۔
ان دو حدیثوں سے
ملتی جلتی اور
بھی حدیثیں ہیں
جیسا کہ خطبۂ
جمعہ میں رسول
کا ’’فان خیر
الحدیث کتاب
اللہ وخیر الھدي
ھدي محمد صلی
اللہ علیہ
وسلم وشر
الأمور
محدثاتھا وکل
بدعۃ ضلالۃ‘‘
(مسلم: الصلاۃ
برقم 2005) (بے
شک سب سے اچھی
بات اللہ کی
کتاب ہے اور
بہترین راستہ
اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ
وسلم کا راستہ
ہے اور سب سے
بری چیزیں دین
میںنو ایجاد چیزیں
ہیںاور ہر
بدعت گمراہی ہے)
پڑھنا، اسے
امام مسلم نے
اپنی صحیح کے
اندر روایت کیا
ہے۔ اور اس کے
علاوہ بھی بہت
سی آیات
واحادیث
موجود ہیں، یہی
وجہ ہے کہ
علماء کی ایک
جماعت نے جشن
عید میلاد
النبی کا سرے
سے انکار کیا
ہے اور اس کے
انجام بد سے
ڈرایا بھی ہے۔
بعض متاخرین
نے ان کی
مخالفت کی اور
اس شرط پر
اجازت دی جب
کہ یہ محفلیں
منکرات پر
مشتمل نہ ہوں
جیسے رسول کی
ذات میںغلو نہ
ہو، مرد وزن
کا اختلاط نہ
ہو، آلات لہو
ولعب کا
استعمال نہ ہو
اور ہر اس چیز
پر مشتمل نہ
ہوں جس پر شریعت
مطہرہ نے نکیر
کی ہے۔ اس کے
قائلین اس عمل
کو بدعت حسنہ
مانتے ہیں
حالانکہ شرعی
قاعدہ یہ ہے
کہ جب کسی
مسئلہ میں لوگ
آپس میں جھگڑ
پڑیں تو اس کو
کتاب اللہ اور
سنت رسول اللہ
کی طرف لوٹایا
جائے، اللہ
تعالی فرماتا
ہے: {یٰأیھا
الذین آمنوا
أطیعوا اللہ
وأطیعوا
الرسول وأولی
الأمر منکم
فان تنازعتم فی
شئی فردوہ الی
اللہ والرسول،
ان کنتم
تؤمنون
باللہ والیوم
الآخر، ذلک خیر
وأحسن تأویلا}
(النساء: 59) اے
ایمان والو!
اللہ، اس کے
رسول اور اپنے
میںسے اختیار
والوں (علماء
وفقہاء اور
امراء وحکام)
کی
فرمانبرداری
کرو، پھر اگر
کسی چیز میں
تم تنازع کر بیٹھو
تو اس کو اللہ
اور اس کے
رسول کی طرف
لوٹاو ٔاگر تم
اللہ اور یوم
آخرت پر ایمان
رکھتے ہو، یہ
بہت بہتر ہے
اور انجام کے
اعتبار سے (بھی)
اچھا ہے۔ نیز
فرمایا: {وما
اختلفتم فیہ
من شئی فحکمہ
الی اللہ}
(الشوری: 10) اور
جس چیز میں تم
اختلاف کر بیٹھو
اس کا فیصلہ
اللہ کی طرف
ہے (اس کو اللہ
کی طرف لوٹاؤ)
اس
لیے ہم نے اس
مسئلہ یعنی
جشن عید میلاد
النبی کے
مسئلے کو اللہ
کی کتاب کی
طرف لوٹایا تو
یہ پایا کہ یہ
کتاب ہمیں
رسول کی اتباع
کا حکم دیتی
ہے ان چیزوں میں
جو رسول لے کر
آئے اور ہمیں
ڈراتی ہے اس چیز
سے جس سے آپ
صلی اللہ علیہ
وسلم نے روک دیا۔
نیز یہ کتاب
ہمیں یہ بھی
خبر دیتی ہے
کہ اللہ
سبحانہ وتعالی
نے اس امت کے لیے
ان کے دین کو
مکمل کر دیا
ہے اور یہ کہ
جب جشن میلاد،
رسول صلی اللہ
علیہ وسلم لے
کر نہیں آئے
تو یہ اس دین
کا حصہ نہیں
ہو سکتا جس کی
تکمیل اللہ نے
ہمارے لیے کر
دیا اور اس میں
رسول کی پیروی
کا حکم دیا۔ یہی
نہیں بلکہ ہم
نے اس مسئلے
کو رسول کی
سنت کی طرف بھی
لوٹایا پھر بھی
اس میں یہ نہیں
پایا کہ آپ
نے کبھی اس کو
کیا ہے اور نہ
ہی اس کا حکم دیا
ہے اور نہ ہی
آپ کے اصحاب
نے کیا ہے، اسی
سے ہم نے جانا
کہ یہ دین
اسلام کا جز
نہیں ہے، بلکہ
یہ نئی بدعت
ہے اور یہود
ونصاری کی عیدوںسے
مشابہت رکھتی
ہے۔ ادنی بصیرت
والے، تلاش حق
میں تھوڑی سی
رغبت رکھنے
والے اور اس کی
جستجو میں
تھوڑا انصاف
سے کام لینے
والوں پر یہ
بات عیاں ہو
گئی کہ جشن عید
میلاد النبی دین
اسلام میں سے
نہیںبلکہ نئی
بدعت ہے، اللہ
تعالی نے اس
کو ترک کرنے اور
اس سے بچے
رہنے کا حکم دیا
ہے۔ اکناف
عالم میں لوگوں
کی جانب سے
بکثرت اس بدعت
کو انجام دینے
کی وجہ سے ہوش
وخرد والے کو
دھوکا نہیں
کھانا چاہئے،
اس لیے کہ اس
کو انجام دینے
والوں کی کثرت
حق کی معرفت
کا معیار نہیں،
حق تو شرعی
دلائل وبراہین
سے پہچانا
جاتا ہے، جیساکہ
اللہ تعالی یہود
ونصاری کے
بارے میں
فرماتا ہے:
{وقالوا لن یدخل
الجنۃ الا من
کان ھودا أو
نصاری، تلک
أمانیھم، قل
ھاتوا
برھانکم ان
کنتم صادقین}(البقرہ:
111) یہ کہتے ہیں
کہ یہود ونصاری
کے علاوہ کوئی
جنت میں نہیں
جائے گا، یہ
صرف ان کی
آرزوئیںہیں
ان سے کہئے کہ
اگر تم سچے ہو
تو اپنی دلیل
پیش کرو اور
فرمایا: {وان
تطع أکثر من
فی الأرض یضلوک
عن سبیل اللہ}
(الانعام: 116) اور
دنیا میں زیادہ
تر لوگ ایسے ہیں
کہ اگر آپ ان
کا کہا ماننے
لگیں تووہ آپ
کو اللہ کی
راہ سے بے راہ
کر دیں گے۔
جشن
عید میلاد
النبی کی محفلیں
بدعت تو ہیں ہی
ساتھ ہی ساتھ
دوسرے منکرات
پر بھی مشتمل
ہوتی ہیں
مثلاً مردوزن
کا اختلاط،
ڈھول تاشے اور
گانوں کا
استعمال، مے
نوشی وغیرہ
اور سب سے بڑھ
کر یہ کہ ان میں
شرک اکبر بھی
شامل ہوتا ہے۔
وہ اس طرح سے
کہ رسول کی
ذات اور آپ
کے علاوہ دیگر
اولیاء کی ذات
میں غلو کیا
جاتا ہے، یہ
لوگ ان سے دعا
مانگتے ہیں،
مدد طلب کرتے
ہیں اور یہ بھی
عقیدہ رکھتے ہیں
کہ وہ غیب
جانتے ہیں،
اور اسی طرح
بہت سے ایسے
کفریہ اعمال ہیں
جن کو لوگ جشن
عید میلاد
النبی اور
اپنے اولیاء
کے یوم پیدائش
مناتے وقت انجام
دیتے ہیں،
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد
ہے: ’’ایاکم
والغلو فی الدین
فانما أھلک
من کان قبلکم
الغلو فی الدین‘‘
(النسائی فی
المناسک برقم
3057 وابن ماجه:
المناسک برقم
3030 وصححہ
الألبانی) دین
میں غلو سے
بچو، اس لیے
کہ جو تم سے
پہلے تھے ان
کو دین میں
غلو نے تباہ
وبرباد کر
ڈالا، اور یہ
فرمان نبوی بھی
ملاحظہ فرمائیں
جس میں آپ صلی
اللہ علیہ
وسلم فرماتے ہیں:’’لا
تطرونی کما
أطرت النصاری
ابن مریم،
انما انا عبد
فقولوا عبد
اللہ ورسولہ‘‘
(البخاری احادیث
الأنبیاء
برقم 3445) مجھے حد
سے زیادہ نہ
بڑھاؤ جیساکہ
ابن مریم کو
نصاری نے بڑھا
دیا، میں تو
صرف اللہ کا
بندہ ہوں لہٰذا
تم لوگ مجھے
اللہ کا بندہ
اور اس کا رسول
کہا کرو۔
تعجب
خیز بات یہ ہے
کہ بہت سے لوگ
اس طرح کی
بدعتی محفلوں
کی زینت بن کر
چستی اور نشاط
ظاہر کرتے ہیں
اور ان کا
دفاع بھی کرتے
ہیں اور جمعہ
وجماعات میں
حاضر ہونے سے
ہچکچاتے ہیں
جو کہ اللہ نے
واجب قرار دیا
ہے، بلکہ اچھی
محفلوں کی طرف
یہ لوگ اپنا
سر بھی نہیں اٹھاتے۔
اور بڑے بڑے
منکرات کے
ارتکاب کو بھی
وہ معمولی
سمجھتے ہیں۔
اس میں کوئی
شک نہیں کہ یہ
ایمان کی
کمزوری اور بصیرت
کی کمی کی وجہ
سے ہے اور ان
کے دلوں میں
مختلف گناہوں
کے انبار لگ
جانے کی وجہ
سے ہے۔ ہم
اللہ سے اپنے
اور تمام
مسلمانوں کے لیے
بخشش کا سوال
کرتے ہیں اور
اس وجہ سے بھی
کہ ان میں کا
بعض یہ تصور
کرتا ہے کہ نبی
صلی اللہ علیہ
وسلم اس کی
مجلس میں حاضر
ہوکر اس کے
اسٹیجوں کو
رونق بخشتے ہیں،
اس لیے (آپ دیکھیں
گے کہ) یہ لوگ
آپ کو مرحباً
کہتے ہوئے
کھڑے ہو جاتے
ہیں، اس سے
بڑھ کر باطل
اور نِری
جہالت کیا ہوسکتی
ہے؟ کیونکہ حقیقت
حال یہ ہے کہ
رسول تو قیامت
سے پہلے قبر
سے نہیں نکلیں
گے اور نہ ہی
لوگوں میں سے
کسی سے آکر
ملیں گے اور
نہ ہی ان کے
اجتماعات میں جلوہ
افروز ہوں گے۔
آپ کی روح تو
اپنے رب کے
پاس
دارالکرامہ میںاعلیٰ
علیین میںہے جیساکہ
سورۃ المومنون
میں اللہ تعالی
فرماتا ہے:{ثم
انکم بعد ذلک
لمیتون ثم
انکم یوم القیامۃ
تبعثون}(المؤمنون:
15 – 16) اس کے بعد
پھر تم سب یقینا
مر جانے والے
ہو پھر قیامت
کے روز بلا
شبہ تم سب
اٹھائے
جاؤگے، اور نبی
نے فرمایا: ’’انا سید
ولد آدم یوم
القیامۃ واول
من ینشق عنہ
القبر واول
شافع واول
مشفّع (مسلم:
الفضائل برقم
5940)’’میں بروز
قیامت آدم کے
بیٹوں کا
سردار ہوں گا
اور میں پہلا
شخص ہوں گا جو
قبر سے نکلے
گا اور سب سے
پہلا سفارشی
اور سب سے
پہلا شخص ہوں
گا جس کی
سفارش قبول(بھی)
ہوگی۔
یہ
آیت وحدیث
جوا وپر مذکور
ہوئیں اور ان
کے مفہوم کی
دوسری آیات
واحادیث اس
بات پر دلیل ہیں
کہ نبی اور
آپ کے علاوہ
دوسرے مردے
بروز قیامت
قبروںسے نکلیں
گے۔
جہاں
تک نبی پر
درود بھیجنے
کا مسئلہ ہے
تو یہ اللہ سے
قربت کا اچھا
ذریعہ اور
اعمال صالحہ میں
سے ہے۔ اللہ
کا فرمان ہے:
{ان اللہ
وملائکتہ یصلون
علی النبی، یأیھا
الذین آمنوا
صلوا علیہ
وسلموا تسلیما}(الاحزاب:
65) اللہ اور اس
کے فرشتے نبی
پر رحمت بھیجتے
ہیں، اے ایمان
والو! تم بھی
ان پر درود بھیجو
اور خوب سلام
بھیجتے رہا
کرو۔ اور نبی
کا فرمان ہے:
’’من صلی علي
واحدۃ صلی
اللہ علیہ بھا
عشرا‘‘ (مسلم :
الصلاۃ برقم 912) جو
مجھ پر ایک
مرتبہ درود بھیجے
گا اللہ تعالی
اس کے بدلہ میں
دس بار اس پر
رحمت بھیجے
گا، درود بھیجنے
کا یہ عمل
ہروقت مشروع
ہے اور ہر
نماز کے اخیر
میں اس کی تاکید
بھی کی گئی ہے
بلکہ ہر نماز
کے تشہد اخیر
میں اہل علم
اس کو واجب
قرار دیتے ہیں،
اس کے علاوہ
بہت سی جگہوں
میں سنت
مؤکدہ ہے جیسے
اذان کے بعد،
نبی کا ذکر
آنے پر اور
جمعہ کے دن
ورات میں، بہت
ساری احادیث
اس پر دلالت
کرتی ہیں۔
اللہ
تعالی سے دعا
ہے کہ ہمیں اور
سارے مسلمانوں
کو دین کی
سمجھ عطا کرے
اور اس پر
قائم رکھے اور
تمام لوگوں کو
سنت کو لازم
پکڑنے اور
بدعت سے بچے
رہنے کی توفیق
دے، وہ یقینا
سخی وکریم ہے،
وصلی اللہ علی
نبینا محمد
وعلی آلہ
وصحبہ۔
(ملخص از
مجموعہ فتاوی
ابن باز جلد 2 / 863 –
872)
دارالإفتاء
جامعہ سلفیہ(مرکزی
دارالعلوم)
بنارس