سگریٹ نوشی اور تمباکو خوری کا شرعی حکم
اس سلسلہ میں صحیح اور راجح موقف یہ ہے کہ یہ حرام ہے درج ذیل وجوہ کی بناپر:
۱- یہ خبائث میںسے ہے اور ان کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے ، ارشادربانی ہے: {وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبَآئِثَ } (اعراف: 157) یعنی نبی امی ان کے لئے پاک چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ناپاک وگندی چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ مجموع الفتاویٰ 21 / 540 میں طیب اور خبیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: فکل ما نفع فھو طیب وکل ما ضر فھو خبیث والمناسبۃ الواضحۃ لکل ذی لب ان النفع یناسب التحلیل والضرر یناسب التحریم‘‘( یعنی ہر نفع بخش چیز طیب وپاک ہے اور ہر ضرر رساں چیز خبیث وگندی ہے اور نفع ہی حلت کے مناسب ہے، اور ضرر حرمت کے مناسب ہے اور دوسری جگہ 17 / 180 میں فرماتے ہیں: ’’فالطیبات التي أباحھا في المطاعم النافعۃ للعقول والاخلاق والخبائث ھي الضارۃ للعقول والأخلاق‘‘ یعنی جب طیبات کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا ہے وہ کھانے پینے کی چیزیں ہیں جو عقل واخلاق کے لئے نفع بخش ہیں اور خبائث وہ چیزیں ہیں جو عقل واخلاق کے لئے ضرر رساں ہیں۔ اس اعتبار سے تمباکو خبائث میں شامل ہیں کیونکہ عقل واخلاق دونوں کے لئے ضرر رساں ہیں اسی وجہ سے بہت سے محققین علمائے کرام نے اس کو خبائث میں شمار کیا ہے۔ جناب شیخ ابن باز اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ: ’’الدخان محرم بکونہ خبیثا ومشتملا علی أضرار کثیرۃ واللہ سبحانہ وتعالی انما أباح لعبادہ الطیبات من المطاعم والمشارب وغیرھما وحرم علیھم الخبائث قال اللہ سبحانہ وتعالی في وصف نبیہ ﷺ في سورۃ الأعراف: 157: {یَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبَآئِث} والدخان بأنواعہ کلھالیس من الطیبات بل من الخبائث، وھکذا جمیع المسکرات کلھا، من الخبائث والدخان، لا یجوز شربہ ولا بیعہ ولاالتجارۃ فیہ کا لخمر، والواجب علی من کان یشربہ ویتجر منہ البداء ۃ بالتوبۃ والانابۃ إلی اللہ سبحانہ وتعالیٰ والندم علی ما قضی والعزم علی أن لا یعود في ذلک، ومن تاب صادقا تاب اللہ کما قال عزوجل: {وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون} (نور: 31، الفتاوی للشیخ ابن باز (1 / 136)۔
یعنی سگریٹ نوشی حرام ہے کیوںکہ یہ گندی چیز ہے اور بہت سے نقصانات پر مشتمل ہے اور اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے کھانے پینے کی چیزوں میںسے پاکیزہ چیزیں ان پر حلال ومباح کی ہیں اور گندی چیزوں کو حرام کیا ہے اور تمباکو اپنی تمام قسموں سمیت پاکیزہ چیزوں میں سے نہیں بلکہ گندی چیزوں میں سے ہے، اسی طرح تمام نشہ آور چیزیں بھی گندی چیزوں سے ہیں۔ اس لیے تمباکو نہ پینا جائز ہے نہ اس کی بیع وشراء اور تجارت جائز ہے، جیسا کہ شراب کی صورت ہے۔ لہذا جو شخص سگریٹ پیتا ہے اور اس کی تجارت کرتا ہے اسے جلد ہی اللہ تعالی کے حضوررجوع اور توبہ کر نا ، گذشتہ فعل پر نادم ہونا اور آئندہ نہ کر نے کا پختہ عزم کرنا چاہئے، اور جو شخص سچے دل سے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے ایمان والو! سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
۲- حرام ہونے کی دوسری وجہ اسکار(نشہ پیدا کرنا) ہے بہت سے علماء محققین کی رائے ہے کہ تمباکو سکر (نشہ) ہے اور نشہ آور اشیاء کے استعمال سے شریعت نے منع کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے حوالہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کل مسکر خمر وکل مسکر حرام‘‘(مسلم الأشربۃ، برقم: 47 / 5219) ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر قسم کی خمر حرام ہے۔
ابوداؤد اور ترمذی میں حضرت عائشہ سے مرفوعا روایت منقول ہے :’’کل مسکر حرام وما أسکر الفرق منہ فملء الکف منہ حرام‘‘(أبوداؤد الأشربۃ باب ماجاء فی السکر، برقم: 3687، والترمذی الأشربۃ باب ماجاء ما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام، برقم: 1866) ہر نشہ آور چیز حرام ہے جس مشروب کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے اس کا ایک گھونٹ پینا بھی حرام ہے۔
علامہ شیخ احمد بن حجر آل بوطامی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: نقل متواتر سے اس کامسکر ہونا ثابت ہے وہ اس طرح کہ اسکو استعمال کر نے والے بہت سے لوگ اپنی عقل کھو بیٹھے، بعض آگ میں جل کر مرگئے۔ بعض سمندرمیںگر کر مرگئے، بعض کنویں میں گر کر ہلاک ہوگئے، ان حقائق کا انکار مکابر، ہٹ دھرم ، اور ضدی ہی کر سکتا ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ: ’’پہلی مرتبہ یا ایک مدت تک چھوڑنے کے بعد استعمال کرنے والوں کے لئے تمباکو مسکر (نشہ آور) ہے، یہ صفت اس کو حرام قرار دینے کے لئے کافی ہے، تحریم کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر استعمال کر نے والے کیلئے مسکر ہو۔
۳- تمبا کو دیگر وجوہ سے بھی حرام ہے ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحریر پڑھئے شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’زردہ، تمباکو کھانا پینا یا اس کا منجن استعمال کر نا یا ناک میں اس کا لڑکنا اور سونگھنا میرے نزدیک جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے، اور نہ اس کی تجارت کرنی ٹھیک ہے ، اولاً اس لئے کہ اس کا استعمال تمام اطباء کے نزدیک بالاتفاق مضر صحت ہے اور صحت کو خراب کر نے والی چیزوں کا استعمال شرعا حرام ہے۔
ثانیا: اس لئے کہ تمباکو کھانے اور پینے والے کے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے جس سے اپنے بغل میں کھڑے ہونے والے نمازی کو اذیت وتکلیف پہنچتی ہے، نیز مسجد میں ایسی بد بودار چیز کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے بلکہ ناجائز ہے۔
ثالثا: اس وجہ سے کہ تمباکو کا استعمال کھانے اور پینے میں اسراف وتبذیر ہے اور اسراف وتبذیر دونوں شرعا حرام ہے۔
رابعا: اس لئے کہ تمباکو کھانا پینا بدن میںسستی اور سر میں چکر اور عقل میں فتور نیز خدر وبے حسی کا اثر پیدا کر تا ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے مسکر کی طرح مفتر سے بھی منع فرمایاہے حدیث میں ہے: ’’نھی عن کل مسکر ومفتر‘‘ جو مولوی صاحبان بیڑی، سگریٹ اور حقہ پیتے ہیں یاپان کے ساتھ زردہ تمباکو استعمال کر کے عورتوں کی طرح اپنا منہ اور ہونٹ لال کرتے ہیں اور ادھر ادھر یہاں وہاں پیک تھوک کر زمین یا دیوار لال کرتے ہیں اور گندگی پیدا کر تے ہیں وہ اپنے فتوے اور عمل کے ذمہ دار ہیں تمباکو، زہر قاتل ص: 94 – 95)
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس بری لت سے بچائے۔ (آمین ثم آمین، تقبل یا رب العالمین)۔
دارالإفتاء
جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)
بنارس