رؤیت ہلال اور اس کے ثبوت کا شرعی طریقہ

 

        چونکہ بہت سے شرعی اور دینی مسائل ماہ قمری سے جڑے ہوئے ہیں اور ماہ قمری بفرمان رسول کبھی انتیس اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے اس لئے نبی کریم ہرماہ کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھتے، اور دوسرے صحابہ کرام کو اس کا حکم دیتے تھے ماہ شعبان کا کچھ زیادہ ہی اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’کان رسول اللہ   یتحفظ من شعبان مالا یتحفظ من غیرہ ثم یصوم  لرؤیتہ رمضان فان غم علیہ عد ثلاثین یوما ثم صام‘‘ (أبوداؤد، الصیام باب إذا اغمی الشھر، برقم: 2325، وصححہ الشیخ الألبانی)  یعنی ماہ شعبان کے ایام کے شمار کر نے میں جتنی عنایت اور توجہ ہوتی تھی اتنی اس کے علاوہ دوسرے مہینوں کے لئے نہیں ہوتی ۔

        اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں: ’’قال رسول اللہ أحصوا ھلال شعبان لرمضان‘‘ (الترمذی الصوم باب ماجاء فی احصاء ھلال شعبان و رمضان، برقم: 786، وحسنہ الألبانی۔ وصححہ المبارکفوریان عبدالرحمن وعبید اللہ رحمہما اللہ (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح از علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری 6 / 442) یعنی رسول اللہ  نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ رمضان المبارک کے روزے کی حفاظت کے لئے ماہ شعبان کے ایام کے احصاء وضبط میںخوب محنت کرو۔

        ان دونوں احادیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ تمام مہینوں کے چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے لیکن ماہ شعبان میں کچھ زیادہ ہی اہتمام ہو۔ ثبوت ہلال میں جنتری، کیلنڈر اور فلکی حساب، رمضان المبارک کا مہینہ ہو یا دوسرا مہینہ، سال کے تمام مہینوں کی ابتداء وانتہاء میںنیا چاند نکلنے اور دیکھے جانے کا اعتبار ہے، جنتری، کیلنڈر، اور فلکی حساب کا قطعاً اعتبار نہیں ہے۔ ہم علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا ایک جامع فتویٰ نقل کرتے ہیں جس میں یہ بات بخوبی واضح ہو جائے گی کہ ثبوت ہلال کے لئے صرف دو ہی طریقے ہیں یا تو چاند دکھائی دے یا اس ماہ کے تیس دن پورے ہوں۔ ان کے علاوہ کوئی تیسرا طریقہ نہیں ہے۔ قال الشیخ: ’’قد صح عن رسول اللہ   أنہ قال صوموا لرؤیتہ  وأفطروا لرؤیتہ، فان غم علیکم فأکملوا العدۃ ثلاثین، وصح عنہ أنہ قال انا أمۃ أمیۃ ھکذا وھکذا وھکذا، وأخرج أحمد والنسائي باسناد حسن عن عبد الرحمن بن زید بن الخطاب عن جماعۃ من أصحاب النبی أن النبي قال صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ وانسکوا لھا فان غم علیکم فأکملوا ثلاثین، قال الشیخ: والاحادیث في ھذا المعنی کثیرۃ، وکلھا تبین للأمۃ أن لا اعتبار في الشرع المطھر للحساب ولکبر الأھلۃ وصغرھا وإنما الاعتبار شرعا بالرؤیۃ أو إکمال العدۃ۔ (مجموع فتاوی ابن باز 5 / 165)

        ومعلوم عند جمیع العقلاء أن الأھلۃ تختلف اختلافا کثیرا بحسب قربھا من الشمس وبعدھا وحسب صفاء  الجو وکدرھا وحسب اختلاف أبصار الناس في القوۃ والضعف ولذلک اناط المصطفی الحکم في ھذا الأمر العظیم بالرؤیۃ وإکمال العدۃ ولم یجعل مناطا آخر فعلم بذلک ان من علق الحکم في الرؤیۃ بامر ثالث فقد شرع في الدین مالم یأذن بہ اللہ وقد قال سبحانہ وتعالیٰ في انکار ذلک’’ {أَمْ لَہُمْ شُرَکَاء  شَرَعُوا لَہُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأْذَن بِہِ اللَّہُ } (الشوری: 21) وقال النبی: ’’من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد‘‘۔ (رواہ مسلم) وقال شیخ الإسلام ابو العباس ابن تیمیۃ رحمہ اللہ في مجموع الفتاویٰ (2 / 132): فإنا نعلم بالاضطرار من دین الإسلام أن العمل في رؤیۃ ھلال الصوم أو الحج أو العدۃ أو الإیلاء أو غیر ذلک من الأحکام المعلقۃ بالھلال بخبرالحاسب، انہ یری أو لا یری لا یجوز، والنصوص المستفیضۃ عن النبی بذلک کثیرۃ وقد أجمع المسلمون علیہ ولایعرف فیہ خلاف قدیم أصلا۔ (مجموع الفتاوی لسماحۃ  الشیخ ابن باز 5 / 165) یعنی نبی کریم  نے فرمایا کہ: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور افطاراور قربانی بھی کرو۔ اگر انتیس کو چاند نہ دکھائی دے تو تیس پورے کرو۔

        شیخ فرماتے ہیں کہ اس معنی کی اور بھی بہترے احادیث ہیں اور سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اسلام میں حساب فلکی اور چاند کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ شرعا جس چیز کا اعتبار ہے وہ صرف رؤیت ہلال یا تیس دن پر ماہ پورا کرنے کا۔

        اور یہ بات ارباب عقل وخرد پر مخفی نہیں کہ ہلال میں بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہلال کے سورج کے قریب اور دور ہونے کے اعتبار سے اور فضا صاف اور گرد آلود ہونے کے اعتبار سے، لوگوں کی بینائی کی تیزی اور کمزوری کے اعتبار سے اور اسی وجہ سے نبی کریم اس عظیم معاملے کے حکم کو رؤیت ہلال اور تیس دن کی تکمیل کے ساتھ مربوط کردیا۔ ثبوت ہلال کے لئے کوئی تیسری چیز نہیں بتائی۔ اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ جو لوگ رؤیت ہلال کے ثبوت میں کوئی تیسری بات کہتے ہیں وہ دین میںنئی بات کہتے ہیں اور ایسی بات کہتے ہیں جس کی دلیل کتاب وسنت اور اجماع امت میں نہیں اور جوبات ایسی ہو تی ہے وہ قابل رد ہے۔

        شیخ الاسلام اپنی موقر تحریر میں فرماتے ہیں کہ یہ بات دین اسلام میں بدیہی طور پر معلوم ہے کہ صیام وحج اور عدت وایلاء سے متعلق بہترے مسائل واحکام جن کا تعلق قمر سے ہے۔ ان کو فلکی حساب سے انجام دینا ناجائز اور شرعا سراسرغلط ہے۔ اس بارے میں بہت سے نصوص صریحہ صحیحہ ہیں اور اس با ت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ پہلے لوگوں میںاس بارے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔

         ماہ رمضان کے چاند کی رؤیت کے ثبوت کے لئے ایک معتبر مسلمان کی گواہی کافی ہے، ذیل کی حدیث اس پر دلالت کر تی ہے:

        ۱- عن ابن عمر رضی اللہ عنہا قال ترا أی الناس الھلال فاخبرت رسول اللہ إنی رأیتہ فصام وامر بصیامہ۔ (رواہ أبوداؤد، الصیام، باب فی شھادۃ الواحد علی رؤیۃ ھلال رمضان، رقم: 2342، وصححہ الألبانی۔

        یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لوگ ہلال رمضان دیکھنے کیلئے اکٹھا ہوئے لیکن میں نے تن تنہا نبی کو رؤیت ہلال کی خبر دی تو آپ نے خود روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

        شیخ الحدیث رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ’’واستدل الجھمور علی قبول خبر الواحد العدل في ھلال رمضان بحدیث ابن عباس المتقدم و حدیث ابن عمر لأنہ خبر عن وقت الفریضۃ فیما طریقہ المشاھدۃ فقبل من واحد کالخبر بدخول وقت الصلوۃ، (مرعاۃ المفاتیح بشرح مشکوۃ المصابیح 6 / 449) یعنی جمہور علماء کرام کے نزدیک ثبوت ہلال رمضان کے لئے ایک عادل شخص کی گواہی کافی ہے، ان کی دلیل حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کی دو مذکورہ حدیثیں ہیں اور اس لئے کہ یہ ایک فریضہ کے وقت کے بارے میں خبر ہے ایسے امور کے بارے میں جن کا تعلق دید ومشاہدہ سے ہے اس لئے اس کی خبر قبول کر لی گئی، جس طرح کوئی ایک عادل شخص دخول وقت نماز کی خبردے تو قبول کی جاتی ہے۔

        مگر عید الفطر اور ذی الحجہ کے مہینوں کی ابتداء کے لئے دو معتبر مسلمان مردوں یا ایک مسلمان مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے۔ اور یہ حکم درج ذیل احادیث سے مستنبط ہے: ’’عن رجل من أصحاب  النبی قال: اختلف الناس في آخر یوم من شھر رمضان فقدم أعرابیان فشھدا عند النبي باللہ لأھلا الھلال أمس عشیۃ  فأمر رسول اللہ الناس أن یفطروا وزاد خلف فی حدیثہ۔ وأن یغدوا إلی مصلاھم‘‘(أبوداؤد فی الصیام، باب شھادۃ رجلین علی رویۃ ھلال شوال، برقم: 2339، وصححہ الألبانی) یعنی ایک صحابی رسول فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان کے اختتام کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہوا اتنے میں دو دیہاتیوں نے نبی کی خدمت میں آکر بوقت شام گذشتہ کل کی رؤیت ہلال کی گواہی دی تو آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر دیں اور آئندہ کل نماز عید کے لئے عیدگاہ جائیں۔

        عن أبی مالک الاشجعي نا حسین بن حارث  الجدلي أن امیر مکۃ خطب ثم قال عھد إلینا رسول اللہ أن ننسک للرؤیۃ فان لم نرہ وشھد شاھدا عدل نسکنا بشھادتھما‘‘ (أبوداؤد الصیام باب شھادۃ رجلین علی رویۃ ھلال شوال، برقم: 2338 وصححہ الألبانی) (قال شیخ الحدیث في کتابہ: ’’واما ھلال شوال فلا یقبل فیہ إلا شھادۃ اثنین عدلین في قول الفقھاء جمیعھم إلا أبا ثور فانہ قال یقبل قول واحد، وإلیہ ذھب ابن حزم رحمہ اللہ ورجحہ الشوکانی في النیل وغیرہ۔‘‘ (مرعاۃ المفاتیح بشرح مشکوۃ المصابیح 6 / 450) یعنی حسین بن حارث جدلی فرماتے ہیں کہ امیر مکہ نے خطبہ کے بعد فرمایا کہ ہمیں اللہ کے نبی نے وصیت فرمائی ہے کہ ہم چاند دیکھ کر قربانی کریں، اگر ہم چاند نہ دیکھیں اور دو عادل گواہ گواہی دیدیں توہم ان کی گواہی کی بنیاد پر قربانی کریںگے۔ امام نووی اور شیخ الحدیث رحمہما اللہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء کرام کے نزدیک ہلال عید کے ثبوت کے لئے دو گواہوں کی گواہی کی ضرورت ہے، ایک عادل گواہ کی گواہی کافی ہوگی سوائے ابو ثور کے اور یہی مسلک ابن حزم اور شوکانی کا ہے۔جمہور کی تائید شیخ ابن باز کے کلام سے ہوتی ہے۔ ’’یثبت دخول الشھروخروجہ بشاھدی عدل فأکثر ویثبت دخولہ فقط بشاھد واحد لأنہ ثبت عن النبی انہ قال فان شھد شاھدان فصوموا وأفطروا ویثبت عنہ أنہ أمر الناس بالصیام بشھادۃ ابن عمر رضی اللہ عنہما وبشھادۃ أعرابي ولم یطلب شاھدا آخر علیہ الصلوۃ والسلام‘‘ (مجموع فتاویٰ ابن باز رحمۃاللہ علیہ 5 / 173)

کس جگہ سے مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی طرف کتنی کتنی دوری کی خبر معتبر ہوگی۔

        اس سلسلے میں شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ کا موقف متوازن اور معتدل ہے، اس لئے میں انہی کا کلام نقل کر نے پر اکتفا کرتا ہوں۔ شیخ الحدیث فرماتے ہیں کہ : کسی مقام میں رمضان یا شوال کا چاند دیکھا گیا تو اس مقام رؤیت سے دور مشرق میں واقع دوسرے مقام والوں کے لئے ان کی رؤیت اس وقت معتبر ہوگی جب ان دوسرے مقامات  کے مطالع، مقام رؤیت مطلع سے مختلف نہ ہو۔ موضع رؤیت سے دور مشرق میں واقع بلاد وامصارکے حق میںمغربی مقام کی رؤیت کے اعتبار وعدم اعتبار کے معاملہ میں  شام (جو مدینہ سے شمال مغرب میں واقع ہے) کی رؤیت کا اعتبار بظاہر اس لئے نہیں کیا تھا کہ مدینہ کا مطلع شام کے مطلع سے مختلف ہے۔

        بعض علماء فلکیات کا کہنا ہے کہ مطلع پانچ سومیل کی مسافت پر مختلف ہو جاتا ہے، بنابریں ہندوستان کے کسی مغربی مقام کی رؤیت اس کے مشرقی حصہ مثلاً مشرقی بہار، بنگال جو کہ پانچ سو میل سے دور کی مسافت ہے، کے حق میں معتبر نہ ہوگی۔ (رمضان المبارک کے فضائل واحکام ص 102، ومرعاۃ المفاتیح 6 / 428، 429، بھی ملاحظہ ہو)۔ لیکن مشرق والوں کی رؤیت مغرب میں رہنے والوں کے لیے بلا کسی قید مسافت کے معتبر مانی جائے گی۔

 

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)

بنارس