کمیشن پہ چندہ کرانے کا شرعی حکم

 

        خدمت عالیہ میں بصد ادب واحترام التماس ہے کہ آپ درج ذیل سوال کا جواب از راہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں دینے کی زحمت فرمائیں، میںبصمیم قلب شکر گذار ہوں گا۔

        زید کو اس کے از خود کسی مطالبے کے بغیر ایک مدرسے کے ذمہ دار بکر نے بیرون ہند مالیات کی فراہمی کیلئے اس معاہدے پر بھیجا کہ اس کے زیر نگرانی چل رہے مدرسہ ومسجد کے لئے جو کچھ بھی فنڈ کی فراہمی ہوگی ا س میں سے وہ زید کو نصف حصہ دے گا۔ اور بقیہ نصف حصہ وہ اپنے مدرسے ومسجد پر خرچ کرے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ جو بھی کرایہ ورابطہ چارج ویزاٹکٹ اور سفر خرچ وغیرہ وغیرہ، سب کچھ زید ہی کے ذمہ ہوگا، جو اسی اپنے نصف حصہ سے خرچ کر لے گا، چاہے اس کا کل خرچ ہوجائے چاہے اس کا کل بچ جائے۔ اس سے بکر کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ چنانچہ زید کمر بستہ ہو گیا اور اس سلسلے کی تمام تگ ودو شروع کردی، بیرون ہند پہنچ کر اپنے بعض متعارفین واعزاء جو وہاں اپنے کاروبار کے سلسلے میں موجود تھے کے ذریعہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کر کے ایک خطیر رقم چندہ کرنے میں بفضلہ تعالی کامیاب ہوگیا۔ اس رقم میں ایک رقم وہ بھی شامل ہے جو اس کے اپنے قریبی عزیز خالد کے توسط وسفارش سے برائے مسجد حاصل ہوئی تھی، زید کو وہاں جو بھی رقم حاصل ہوئی تھی اسے بطور امانت خالد کے پاس جمع کر دیا تھا لیکن بعد میں واپس آنے پر بکر اور خالد کے درمیان مختلف قسم کی باتیں ہوتیں رہیں یہاںتک کہ خالد نے زر مبادلہ دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اگر ہم معاہدے کے مطابق رقم دے دیں گے زید کو تو مسجد مکمل کیسے تعمیر ہوگی اور بکر نے تو یہ کہا کہ مجھے جب زید سے پیسہ ہی نہیں ملا تو میں کہاں سے دوں؟ جب کہ نتیجے میں زید مجبوراً اس حد تک  تیار ہوچکا ہے کہ ٹھیک ہے میں نے کم وبیش دو ماہ بیرون ہند کا دورہ کیا جس کے تحت تقریبا چھبیس ہزار روپئے ٹکٹ، ویزا، ٹیلی فون، فیکس وغیرہ میں خرچ ہوئے ہیں وہ اور مزید میری مزدوری جو بھی انصاف پسند لوگ طے کریں وہ مجھے دیدیں۔ ادھر مسجد بھی بنالیں اگر کچھ رقم پھر بھی کم پڑے تو لوگوں سے عوامی چندہ کر کے پوری کرلیں۔ لیکن مجھ غریب کی مزدوری اور ضروری اخراجات مذکورہ مجھے کل رقم مل جائے۔ میں ہر طرف سے کیونکر ستایا جاؤں۔ محنت بھی کروں اور اپنے پاس سے پیسے بھی خرچ کروں وہ بھی واپس نہ ملے اور مزدوری سے بھی مکمل محروم رکھا جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔

        براہ کرم صورت مسئولہ میں یہ بتانے کی زحمت فرمائیں کہ مذکورہ معاہدے کے مطابق مدارس ومساجد کا چندہ کر نا وکروانا از روئے شرع جائز ہے یا نہیں؟ نیز یہ بھی تحریر کریں کہ مزدوری غصب کر کے بکر وخالد کی رضامندی سے کسی دوسرے شخص کا (مذکورہ رقم کا سارا معاملہ جانتے بوجھتے ہوئے) مسجد بنوانا شرعا کس حد تک درست ہے۔ اور خالد کا مذکورہ رویہ امانت ودیانت کی روشنی میں کہاں تک صحیح ہے، امید ہے کہ آپ کتاب وسنت کی روشنی میں جلد از جلد جواب سے نوز کر زید کی الجھنوں کو دور کر نے کی زحمت فرمائیں گے۔

        کتاب وسنت کی روشنی میں جو بھی فیصلہ ہوگا وہ زید کو بہرحال قبول ہوگا۔ إن شاء اللہ تعالی، والسلام۔

الجواب بعون اللہ الوھاب وھوالموفق للصواب:

        یہ بات متواترالمعنی مشہور ومعروف احادیث سے ثابت ہے اور قرآنی لفظ{وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا }(سورۃ التوبہ: 60) سے واضح ہے کہ زکوۃ وصدقات، عشر وجزیہ وصول کر نے کیلئے جن لوگوں کو مقرر کیا جائے انہیں وصول شدہ رقوم واشیاء میں سے بطور معاوضہ کچھ نہ کچھ ضرورملنا چاہئے۔ یہ احادیث مشہورہ ومتواترہ اور آیت کریمہ اس قدر عوام وخواص میں معروف ومعلوم ہیں کہ یہاں انہیں ذکر کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

         بہرحال چندہ وصول کرنے والے کو دینا فرض ہے، چندہ وصول کرنے والے کے معاوضہ کو شریعت کی طرف سے متعین ومحدد نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے مطلق ذمہ داروں کی صواب دید پر چھوڑدیا گیا ہے اس لئے یہ بالکل جائز ہے کہ چندہ وصولی کے لئے جس قدر معاوضہ پر فریقین کے درمیان برضا وخوشی معاہدہ ہوجائے اسے چندہ وصول کر نے والے کو دیا جائے، اس لئے بکر وزید کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اسے بکر پر ایفا کر نا فرض ہے قرآنی ارشاد ہے: {وَأَوْفُواْ بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُولا} (سورہ بنی اسرائیل: 34) اپنے اس ارشاد میںاللہ تعالیٰ بصیغۂ امر معاہدہ وپیمان کو پورا کر نے کا حکم بطور فرض دیا ہے جس کے متعلق بروز قیامت محاسبہ کا خوف دلایا ہے اور ظاہر ہے کہ بروز قیامت محاسبہ بہت ہولناک چیز ہے نیز اس معاہدہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد پر دست اندازی کی آخرت میں بڑی بھاری سزا ہے اس لئے بکر وخالدکو معاہدے کے مطابق زید پر پوری رقم یعنی کل رقم کا نصف حصہ دینا فرض ہے گر زید بخوشی اپنے حصہ کی رقم میں سے کچھ رقم مسجد ومدرسہ کو دیدے تو ٹھیک ہے۔ زید کی جو رقم مدرسہ ومسجد والی رقم میں شامل کر کے مسجد ومدرسہ پر بلا رضائے زید خرچ کی جائے وہ ناجائز وغیر مباح وحرام ہے کیوں کہ کسی کی حق تلفی کرکے ظلما وجوراً حاصل کر دہ رقوم حرام ہیں، مزید قباحت یہ ہے کہ زید کے معاہدے کے مطابق زید کو معاوضہ نہ دے کر روک لیا گیا ، مدرسہ ومسجد کے ذمہ دار لوگ مسجد ومدرسہ کے لئے وصول وتحصیل کر کے آنے والی رقم کے امین ہیں اور صورت مذکورہ میں ذمہ داران مدرسہ ومسجد خائن وبددیانت قرار پاتے ہیں۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)

بنارس

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

علاقائی زبان میں خطبۂ جمعہ کا شرعی حکم

 

        ضروری مسئلہ یہ ہے کہ میری عمر۵۴ سال ہے اور اب تک میں خطیبوں کو منبر پر خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے دیکھا کہ دونوں خطبے یعنی عربی اور اردو (علاقائی زبان ) میں دیتے تھے، مگر تقریباً ایک سال ہو رہا  ہے ایک مختلف طریقہ سے خطبہ جمعہ سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یعنی پہلے منبر کے بازو کھڑا رہ کر اردو میں خطبہ کہتے اور بعد میں صرف عربی خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر دیتے ہیں۔ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں اور اہل حدیث ودیگر یعنی حنفی طریقوں کے حوالے سے جواب دیں کیوںکہ ہمارے جماعتی بھائی مطمئن نہیں ہیں۔ تذبذب میں ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، معلومات کی کمی کی وجہ سے غیر مطمئن ہیں لہذا جلد جواب لکھیں۔ فقط ۔

الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:

        اولاً:  آپ نے بچپن سے لے کر اب تک جو خطبۂ جمعہ سنا یعنی منبر پر اردو وعربی میں۔وہی طریقہ صحیح ہے خطبۂ جمعہ سے قبل منبر کے بازو میں کھڑے ہو کر اپنی زبان میں تقریر کر نا پھر منبر پر خطبۂ جمعہ دینا یہ بعض لوگوں کا ایجاد کیا ہوا ایک طریقہ ہے ، جو کہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے بلکہ اس سے خطبہ کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ : ’’عن جابر بن سمرۃ قال کانت للنبي خطبتان یجلس بینھما یقرأ فیھا القرآن ویذکر الناس‘‘ (رواہ مسلم، الجمعۃ باب ذکر الخطبتین قبل الصلوٰۃ و ما فیھا من الجلسۃ، برقم: (۵۹۹۱)یعنی حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ آنحضور  جمعہ کے دن دو خطبے دیا کر تے تھے ان دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھتے تھے اور آپ خطبہ میںقرآن مجید پڑھتے تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے، مسلم شریف کی مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن وعظ وتذکیر کامقام اور محل خطبہ ہے اس لئے اس سے پہلے وعظ و نصیحت وتقریر کر نا خطبہ کو بے اثر بنانا ہے اور اس کو اس کے مقصد سے ہٹا کر دوسرے مقصد میں استعمال کر نا ہے، پس جو طریقہ آپ کے یہاں رائج ہو رہا ہے وہ ایک بدعت ہے اس سے احتراز کر نا ضروری وواجب ہے تاکہ اس حدیث کے وعید میں داخل نہ ہوں’’ من أحدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھورد‘‘ (البخاری الصلح، باب إذا الصطلحوا علی صلح جور ما لصلح مردود، برقم: ۷۹۶۲، ومسلم: الاقضیۃ باب نقض الأحکام الباطلۃ ورد محدثات الأمور، برقم: ۳۹۴۴)یعنی دین میںجس نے کوئی نئی بات ایجاد کی جو دین میں نہ تھی وہ مردود و باطل ہے، اور مسلم شریف کی حدیث میںہے کہ : ’’من عمل عملا لیس عیہ امرنا فھورد‘‘ معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو خطبۂ جمعہ سے قبل اپنی اپنی زبان میں لوگوں سے خطاب کر تے ہیں ناجائز ہے۔

        ثانیاً:  وہ جو خطبۂ جمعہ سے قبل اردو زبان میں تقریرکرتے ہیں جس کا مشاہدہ آپ لوگ چند دنوں سے کر رہے ہیں اس کا ایک پس منظر ہے اور وہ باطل ہے وہ یہ کہ ان کے یہاں خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ دوسری زبان میں دینا اور وعظ ونصیحت کرنا جائز نہیں ہے اس لئے وہ لوگ خطبۂ جمعہ سے قبل ہی اپنی زبان میں تھوڑی دیر تقریر کر تے ہیں۔ لیکن یہ بات بالکل بے بنیاد وباطل ہے بلکہ صحیح ودرست بات یہ ہے کہ ہر آدمی(خطیب) اپنی زبان میںخطبہ جمعہ دے سکتے ہیں کیونکہ حدیث کے لفظ’’یذکر الناس‘‘ ہی سے ثابت ہے کہ خطبہ جمعہ سامعین کی زبان میں ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ خطبہ دوسری زبان میں ہو اور سامعین کوئی دوسری زبان بولتے اور جانتے ہوں تو وعظ ونصیحت اور تذکیر کا کوئی فائدہ نہیں ہے قرآن مجید میں ہے :{ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ فَیُضِلُّ اللّہُ مَن یَشَاء ُ وَیَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ}(سورہ ابراہیم: ۴) آیت کریمہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ رُسل علیہم السلام اپنی زبان میں لوگوں کو سمجھاتے اور وعظ ونصیحت کر تے تھے، جیسا کہ سورہ انعام میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :{وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ إِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ} (سورہ الانعام: ۸۴) اوپرکی آیت سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ سمجھانا، وعظ ونصیحت کر نا ، تذکیر ،تبشیر وتنذیر اسی زبان میں ہو،جس کو سامعین سمجھ سکیں ، اس لئے اللہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہر قوم کا پیغمبر اسی قوم کی زبان میں بھیجا گیا تاکہ ان کو ڈرا سکے اور سمجھاسکے ۔ اس کے بغیر وعظ ونصیحت کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب ہر پیغمبر نے اپنی اپنی زبان میں وعظ وتذکیر کی تو مختلف زبانوں میں تذکیر ہوئی اور خطبہ کا مقصد بھی تذکیر ہی ہے اس لئے اسے بھی مختلف   زبانوںمیں ہونا چاہئے، یعنی جہاں جیسے سامعین ہو ں وہاں انہیں کی زبان میں خطبہ دینا چاہئے، پس جہاں اردو سمجھنے والے سامعین ہوں وہاں اردو زبان میںخطبہ دیناچاہئے، آپ نے اپنے یہاں کے خطبہ جمعہ کا جو طریقہ تحریر فرمایا ہے وہ غلط ہے جیسا کہ حدیث کے لفظ’’یذکر الناس‘‘ سے ثابت ہے اس لئے جو طریقہ ایک سال سے ایجاد ہو گیا ہے وہ بدعت ہے قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

        لہذا آپ لوگوں کو چاہئے کہ سنت کے مطابق خطبہ جمعہ دیں اور بدعات وخرافات سے بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی مدد فرمائے، آمین۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ

مرکزی دارالعلوم، بنارس

 

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

متوفیٰ عنہا زوجہا اپنے شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارے گی

 

        کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:

        ہمارے لڑکے عبدالقیوم کا چھت سے گرنے کے بعد انتقال ہو گیا اور اسے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے اور لڑکی کی ماں (عبدالقیوم کی ساس) چاہتی ہے کہ اس کی لڑکی میکے میںآکر عدت گذارے جبکہ ہمارے گھر میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہے تو کیا ماں کی چاہت کے مطابق لڑکی کا میکے میںعدت گذارنا صحیح ہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔

الجواب بعون اللہ الوھاب ومنہ الصدق والصواب:

        جس عورت کا شوہر وفات پاجائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چار مہینے دس دن عدت گذارے اور سوگ منائے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرا}( البقرۃ:۴۳۲)  او رنبی کریم کا فرمان ہے : ’’ لا یحل لامرأۃ مسلمۃ تومن باللہ والیوم الآخر لا تحد امرأۃ علی میت فوق ثلاث إلا علی زوجھا أربعۃ اشھر وعشرا‘‘ (البخاری: الطلاق، باب تحد المتوفی عنھا أربعہ أشھرو عشرا، برقم: ۹۳۳۵)  یہ اوراس طرح کی آیت وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ متوفی عنہا زوجہا عورت پر چار ماہ دس دن عدت گذارنا ضروری وواجب ہے۔ اب عدت کہاں گذارے اس سلسلہ میں اللہ کے رسول کا فرمان  ہے کہ : ’’ ان الفریعۃ بنت مالک قالت: خرج زوجی فی طلب أعلاج لہ فادرکھم بطرف القدوم فتقلوہ فجاء نعی زوجی و أنا فی دار من دورالأنصار شاسعۃ عن دار أھلی فأتیت النبی فقلت یا رسول اللہ ! أنہ جاء نعی زوجی و أنا فی دار شاسعۃ عن دار أھلی و دار إخوتی ولم یدع مالا ینفق علی ولا مالا ورثتہ ولا دارا یملکھا فإن رأیت أن تأذن لی فألحق بدار أھلی و دار إخوتی فإنہ أحب إلی و أجمع لی فی بعض أمری قال: فافعلی إن شئت‘‘ قالت فخرجت قریرۃ عینی لما قضی اللہ لی علی لسان رسول اللہ حتی إذا کنت فی المسجد أو فی بعض الحجرۃ دعانی فقال ’’کیف زعمت‘‘ قالت فقصصت علیہ فقال ’’امکثی فی بیتک الذی جاء فیہ نعی زوجک حتی یبلغ الکتاب اجلہ قالت فاعتددت فیہ أربعۃ أشھروعشرا‘‘۔ (رواہ ابن ماجۃ فی الطلاق باب این تعتدالمتوفی عنھا زوجھا، برقم: ۱۳۰۲، وصححہ الألبانی) اس روایت کا اصل نسائی اور ترمذی کے اندر بھی ہے۔

         اس روایت کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول  نے متوفی عنہا زوجہا عورت کو وہیںعدت گزارنے کا حکم دیا ہے جہاں اس کو شوہرکی موت کی خبر ملے ، یعنی دوسری جگہ منتقل ہونا جائز نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بیوہ عورتوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنے متوفی شوہر کے گھر میںہی عدت گذاریں لیکن اس کو اگر جان یا آبروریزی وغیرہ کا خطرہ ہو اور کوئی اس کا محافظ بھی نہ ہو تو اس طرح کی عورت کے لئے جائز ہے کہ اپنے شوہر پر عدت گذارنے کے لئے اپنے ولی کے گھر یا اپنے لئے کسی دوسری پر امن جگہ منتقل ہو جائے، لیکن اگر دست درازی اور ظلم وزیادتی سے محفوظ ہو اور محض اپنے گھر والوں سے قریب رہنا چاہتی ہے تو پھر اس کا منتقل ہونا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس پر واجب ہے کہ اپنی عدت سوگ پوری ہونے تک اپنی جگہ قیام پذیر رہے بعد ازاں اپنے محرم کے ساتھ جہاں جانا چاہتی ہے جائے۔

        صورت مسئولہ میں متوفی شوہر کے گھر عدت گذار نے میںکسی قسم کی کوئی پریشانی نہیںہے جیسا کہ استفتاء کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے  اس لئے مذکورہ عورت کا میکے میں منتقل ہوکر عدت سوگ گزارنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اپنے متوفی شوہر ہی کے گھر عدت گزارنا ضروری ہے۔

 

دارالإفتاء

جامعہ سلفیہ

مرکزی دارالعلوم، بنارس